خلاصہ: مصیبتیں انسانوں کے گناہوں کی وجہ سے ان پر نازل ہوتی ہیں۔
مصیبتوں کے آنے میں اصل خود انسان اثرانداز ہے، اللہ تعالیٰ نے خلقت کے قوانین میں ہرگز مصیبت اور کمی، خلق نہیں کی، یہ انسان کا عمل ہے جو کائنات کو ردّعمل دکھانے پر مجبور کردیتا ہے اور ناگوار واقعات کو وقوع پذیر کرتا ہے۔ درحقیقت انسان اپنے عمل کا کڑوا پھَل کھاتا ہے اور اس میں اصلی کردار خود انسان کا ہے، جبکہ اچھے واقعات میں انسان کا تھوڑا کردار ہے اور زیادہ تر حصہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، کیونکہ رحمت، برکت، نعمت اور طاقت کے سب مآخذ، اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہی ہے جو انسانوں کو یہ سب عطا کرتا ہے اور انسان کا ان نعمتوں کے نازل ہونے میں تھوڑا اثر ہے۔ لہذا ادب کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کا اس میں تھوڑا سا اثرانداز ہونے کے باوجود اسے اللہ تعالیٰ سے نسبت دے۔
انگور اللہ کی بہترین نعمتوں میں سے ہے۔ ایک آدمی اسے شراب میں بدل دیتا ہے اور دوسرا شخص کسی ضرورتمند کو دے دیتا ہے۔ پہلے آدمی کا مصیبت کو نازل کرنے میں زیادہ تر حصہ ہے اور دوسرے آدمی کا رحمت کے نازل ہونے میں تھوڑا حصہ ہے، کیونکہ پہلے آدمی نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کو اس صحیح مقصد کے راستے سے نکال دیا جس مقصد کے لئے وہ خلق ہوئی تھی، اور دوسرے آدمی نے کسی ضرورتمند کو دے کر نیکی کی ہے۔
عالَم خلقت سبز و خرم اور خوبصورت ہے اور اگر کبھی اس کا چہرہ بگڑ جاتا ہے تو انسان کے بھاری گناہوں کی وجہ سے ہے جو قوم عاد اور ثمود اور دیگر سابقہ اقوام کی نابودی کے باعث بنے تھے، لہذا سب برائیوں کی نسبت خود انسان سے دینی چاہیے، لیکن برکات کا نازل ہونا کیونکہ عالَم خلقت کے نظام کے موافق ہے تو اگرچہ انسان کا تقوا اور پاکدامنی برکتوں کے نزول میں موثر ہے،مگر کیونکہ عالَم خلقت سبز و خرم خلق ہوا ہے تو برکتوں کے نازل ہونے میں انسان بہت ہی کم اثرانداز ہوتا ہے، اسی لیے اس طرح کے واقعات کی اللہ تعالیٰ سے نسبت دی جاتی ہے۔
Add new comment