معصومین علیہم السلام کے بیانات ہمارے لیے جہاں مشعل راہ ہیں وہیں حقیقت کے ترجمان بھی؛اپنی زندگی کو معصومین علیہم السلام کے بتائے فرامین کے قالب میں ڈھالنے کے لیے مندرجہ ذیل بیانات ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
(۱) لَقَضاءُ حاجَةِ أخٍ لي فِي اللهِ أحَبُّ مِنْ إعْتِکافِ شَهْرٍ؛اپنے بھائی کی مدد کرنا میرے نزدیک ایک ماہ کے اعتکاف سے بہتر ہے۔[كلمة الإمام الحسن عليه السلام ، ص 139۔]
(۲) وَاعْمَلْ لِدُنْياکَ کَأنَّکَ تَعيشُ أبَدا، وَاعمَلْ لاِّخِرَتِکَ کَأنّکَ تَمُوتُ غدَا؛ اپنی دنیا کے لیے ایسے کام کرو جیسے تمہیں ہمیشہ رہنا ہے اور آخرت کے لیے ایسے کوشش کرو جیسے کل ہی تمہیں مرجانا ہے۔[كلمه الإمام الحسن (علیه السلام) ص 37، بحارالأنوار: ج 44، ص 138، ح 6۔]
(۳) وَ سُئِلَ عَنِ الْمُرُوَّةِ؟ فَقالَ عليه السلام: شُحُّ الرَّجُلِ عَلي دينِهِ، وَ إصْلاحُهُ مالَهُ، وَ قِيامُهُ بِالْحُقُوقِ؛آپ سے جوانمردی کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا:جوانمردی انسان کا اپنے دین میں طمع رکھنا، اپنے مال کی اصلاح کرنا(حرام سے پرہیز، حلال کمانا، خمس دینا) اور حقوق ادا کرنے کیلئے قیام کرنا ہے۔[۱۔تحف العقول، ص۲۳۵۔۲۔بحار، ج۷۸،ص۱۰۹]
(۴) سُئِلَ عليه السلام: عَنِ الْبُخْلِ؟ فَقالَ: هُوَ أنْ يَريَ الرَّجُلُ ما أنْفَقَهُ تَلَفا، وَما أمْسَکَهُ شَرَفا؛ آپ سے کنجوسی کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا بخل یہ ہے کہ جو انسان نے خرچ کیا ہے، اُسے ضائع سمجھے اور جو ذخیرہ کیا ہے، اُسے عزت و شرف جانے۔[۱۔عدد القویہ، ص۳۷۔۲۔بحار، ج۷۴، ص۴۱۷، ج۷۸، ص۱۱۳]
(۵) أکْيَسُ الْکَيِّسِ التُّقي، وَ أحْمَقُ الْحُمْقِ الْفُجُورَ، الْکَريمُ هُوَ التَّبَرُّعُ قَبْلَ السُّؤالِ؛متقی شخص سب سے زیادہ ہوشیار اور زیرک ہوتا ہے،اور فاجر سے بڑھکر کوئی بے وقوف نہیں،صاحب شرف شخص وہ ہے کہ جو ضرورتمند کے سوال کرنے سے پہلے ہی اسکی حاجت روائی کردے۔[احقاق الحق ج۱۱ ص ۳۰]
(۶) ما تَشاوَرَ قَوْمٌ إلاّ هُدُوا إلي رُشْدِهِم؛ کسی گروہ نے بھی مشورہ نہیں کیا مگر یہ کہ اُس مشورہ کی وجہ سے اپنے ہدایت کے راستے کی رہنمائی حاصل کرلی۔[۱۔تحف العقول، ص۲۳۳۔۲۔بحار، ج۷۸، ص۱۰۵]
(۷) عَجِبْتُ لِمَنْ يُفَکِّرُ في مَأکُولِهِ کَيْفَ لا يُفَکِّرُ في مَعْقُولِهِ، فَيَجْنِبُ بَطْنَهُ ما يُؤْذيهِ، وَ يُوَدِّعُ صَدْرَهُ ما يُرْديهِ؛ میں تعجب کرتا ہوں ایسے شخص کے بارے میں کہ جو اپنی کھانے کی چیزوں کے متعلق تو فکر کرتا ہے لیکن جن علوم کو وہ سیکھتا ہے، اُن میں فکر نہیں کرتا تاکہ اپنے پیٹ کو تکلیف دینے والی غذاؤں سے بچا سکے، اور اپنے سینہ کو ہلاک کرنے والی چیزوں سے دور رکھ سکے۔[سفینة البحار، ج۱، ص۸۴]
(۸) غَسْلُ الْيَدَيْنِ قَبْلَ الطَّعامِ يُنْفِي الْفَقْرَ، وَ بَعْدَهُ يُنْفِي الْهَمَّ؛کھانا کھانے سے پہلے ہاتھوں کو دھلنا فقیری سے محفوظ رکھتا ہےاور کھانا کھانے کے بعد ہاتھوں کو دھلنا غم و اندوہ سے دور رکھتا ہے۔ [کلمه الامام حسن ج۷ص۴۳]
(۹) حُسْنُ السُّؤالِ نِصْفُ الْعِلْمِ؛جس کے اندر بہترین نکات کے بارے میں سوال کرنےکی عادت ہو اس نے علم کا آدھا راستہ طئے کرلیا ہے۔[کلمه الامام حسن ج۷ص۱۲۹]
(۱۰) يَابْنَ آدَمٍ، لَمْ تَزَلْ في هَدْمِ عُمْرِکَ مُنْذُ سَقَطْتَ مِنْ بَطْنِ اُمِّکَ، فَخُذْ مِمّا في يَدَيْکَ لِما بَيْنَ يَدَيْکَ؛اے آدم کے بیٹے! جب سے تو اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے، اُس وقت سے تیری عمر ختم ہورہی ہے۔جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، اُسے آخرت کیلئے بچا کر رکھ۔ [کلمه الامام حسن ج۷ص۳۵]
Add new comment