زیارت ہمیشہ سے اسلام کے پسندیدہ اعمال میں شمار ہوتی آئی ہے اور پوری اسلامی تاریخ میں، مسلمان اس کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔
قرآن کریم نے زيارت کے مستحب ہونے کو صراحت کے ساتھ بیان نہیں کیا ہے؛ لیکن بعض آیات کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زیارت قبور مسلمانوں کے درمیان ایک رائج عمل تھا۔ سورہ توبہ کی آیت 84 میں پیغمبر اکرم(ص) کو منافقین کی نماز جنازہ بجا لانے سے باز رکھا گیا ہے اور آپ(ص) کو ان کی قبروں کے پاس کھڑے ہونے سے روکا گیا ہے۔ "وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَداً وَلاَ تَقُمْ عَلَىَ قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُواْ وَهُمْ فَاسِقُونَ۔ (ترجمہ: اور نماز [جنازہ] کبھی نہ پڑھئے اس کی جو ان میں مرجائے، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوجائیے، کیوںکہ انھوں نے کفر کیا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ، اور ایسے حال میں مرگئے ہیں کہ وہ فاسق [اور بداعمال] تھے)۔"تفسیری مآخذ کے مطابق، خداوند متعال نے اس آیت میں منافقین کی نماز جنازہ ادا کرنے اور ان کی قبر کے پاس کھڑے ہونے سے باز رکھا ہے۔[ طبری، جامع البیان، 10، 260۔]۔[ طباطبائی، المیزان، 9، 360۔]۔[ قمی مشهدی، كنز الدقائق و بحر الغرائب، 5، 510۔]مرحوم طبرسی نے تفسیر مجمع البیان میں واضح کیا ہے کہ قبر کے پاس کھڑا ہونا اور دعا کرنا، جائز عبادات میں سے ہے ورنہ اللہ منافق کی قبر کے پاس کھڑے ہونے سے نہی نہ فرماتا۔[ طبرسی، مجمع البیان، ج5، ص100۔]مآخذ و منابع سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمین ابتداء ہی سے بزرگان دین کی قبروں پر حاضری دیتے آئے ہیں اور رسول اللہ(ص) کی قبر شریف ہمیشہ سے مسلمانوں کی زیارت گاہ شمار ہوتی رہی ہے۔
منابع و مآخذ: قمی مشہدی، محمد بن محمد رضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، محقق: حسین درگاہی، الناشر: مؤسسۃ شمس الضحى الثقافيۃالطبعۃ: الاولى المنقحۃ 1430ھ ق۔
Add new comment