تقیہ کی جواز پر بہت ساری قرآنی، روایی اور عقلی دلائل کے علاوہ اجماع بھی اس کے جواز پر دلیل ہے۔
تقیہ کا لفظ براہ راست قرآن میں نہیں آیا ہے لیکن اس کے مشتقات بعض آیات میں ذکر ہوئے ہیں اسلامی تعلیمات میں متعدد مقامات پر خاص شرائط جیسے اضطراری حالتوں میں تقیہ کی جواز بلکہ وجوب پر مختلف آیات سے استدلال کیا جاتا ہے[فاضل مقداد، ص۳۷۷ـ ۳۷۸]
ترجمہ: خبردار صاحبانِ ایمان .مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔[سورة آل عمران28]اس آیت کے مخاطب تمام مسلمان ہیں، اس آیت کے مطابق صدر اسلام کے جن مسلمانوں کو مشرکین کے آذار و اذیت کا سامنا کرنا پڑتا تھا ان کی پیروی کرنے سے مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے لیکن ضرورت پڑنے کی صورت میں اور کسی جانی یا مالی نقصان کی صورت میں وہ تقیہ کرنے کے مجاز تھے[طوسی؛ فخررازی؛ نَسَفی؛ سُیوطی؛ طباطبائی، ذیل آیت] شیعہ مفسرین اور علماء [طوسی، التبیان؛ طباطبائی، ذیل آیت]اہل سنّت[زمخشری؛ آلوسی؛ مراغی؛ قاسمی،] بھی اس آیت سے تقیہ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔
ترجمہ: جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلے .... علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو ....اور کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو اس کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔[سورة النحل106]یہ آیت عمار یاسر اور انکے مشرکین کے ظلم و بربریت سے بچنے کی خاطر تقیہ اختیار کرتے ہوئے کفر کے اظہار کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے پیغمبر اکرم(ص) نے عمار یاسر کے اس کام کی تائید کرتے ہوئے آئندہ بھی ایسی حالات کے پیش آنے پر اس عمل کو تکرار کرنے کا حکم دیا [ واحدی نیشابوری، ص۱۹۰؛ زَمَخْشَری؛ طَبْرِسی؛ قُرطُبی، اسی آیت کے ذیل میں]۔
منبع:فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، او، مفاتیح الغیب، بیروت ۱۴۲۱/۲۰۰۰؛فاضل مقداد، مقداد بن عبداللّہ، اللوامع الالہیہ فی المباحث الکلامیہ، چاپ محمد علی قاضی طباطبائی، قم ۱۳۸۰ ش.۔
Add new comment