تَقیہ ایک دینی اصطلاح ہے جس کے معنی کسی خاص مواقع پر اپنے قلبی عقیدے کے برخلاف کسی عقیدے کا اظہار کرنا یا کسی کام کو انجام دینے کے ہیں۔
تقیہ لغت میں منع کرنا، پرہیز کرنا اور چھپانے کے معنی میں آتا ہے دینی اصطلاح میں تقیہ سے مراد حق اور حقیقت کے برخلاف دوسروں کے عقیدے کے مطابق عمل کر کے اپنے آپ کو ان کے گزند سے محفوظ رکھنا ہے۔ شیخ مفید کی تعبیر کے مطابق مخالفوں کے سامنے کسی دنیوی یا دینی نقصان سے بچنے کی خاطر حق اور حق پر اعتقاد رکھنے کو چھپانے کا نام تقیہ کہلاتا ہے،تقیہ میں نفاق کے برخلاف کہ جس کا موضوع شرک اور باطل کو چھپا کر حق اور حقیقت کا اظہار کرنا ہے، مومن کسی جانی یا مالی ضرر سے بچنے کی خاطر حق اور حقیقت کے اظہار سے خوداری کرتا ہے، اس کے جواز پر قرآنی، روائی اور عقلی دلائل موجود ہیں، منجملہ ان میں سے ایک عقلی توجیہ جو تقیہ کو جائز قرار دیتی ہے وہ انسان کا خود یا اپنی کمیونٹی کو مخالفین کی ظلم اور ستم سے بچانا ہے۔
تقیہ کی بحث پہلی صدی ہجری سے ہی کلامی اور فقہی طور پر مورد بحث واقع ہوتی چلی آرہی ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ ایک طرف سے شیعہ علماء کی اکثریت اپنی علمی آثار میں تقیہ کے موضوع پر کوئی نہ کوئی کتاب یا مقالات کی شکل میں اثر چھوڑ گئے ہیں تو دوسری طرف سے بعض فرق جیسے خوارج بھی تقیہ کے جواز کے قائل تھے اور ہیں، بعض مورخین کے مطابق مأمون عباسی کے دور میں خلیفہ کی دھمکی اور جبر کی وجہ سے بعض دانشمندوں کا ظاہری طور پر قرآن کے مخلوق ہونے کی بات کو قبول کرنا تقیہ کی مصادیق میں سے ہیں۔
اہل تشیع حضرات دوسرے مذاہب سے زیادہ تقیہ پر عمل کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں، اس کی وجہ بعض شیعہ فرقوں میں باطن گرائی کی طرف میلان اور مختلف ادوار میں سماجی، ثقافتی اور اقتصادی طور پر مختلف حوالے سے ان کے خلاف ہونے والے اقدامات ہیں، اہل سنت کے بعض علماء تقیہ کو شیعوں کی کمزوری خیال کرتے ہیں جبکہ شیعہ علماء اس کا جواب دیتے آئے ہیں اور اس بات سے موافقت نہیں کرتے ہیں۔
اس ضمن میں مزید معلومات کے لیے ان کتب کی جانب رجوع فرمائیں:تقیہ کتاب وسنت کی روشنی میں؛ تحریر: آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی مدظلہ العالی؛انصاری، مرتضی بن محمد امین، التقیہ، چاپ فارس حسون، قم ۱۴۱۲۔
Add new comment