خلاصہ:
حقیقت میں یہ عظیم ذمہ داری جو ملت کی نگہبان ہے اسے ترک کرنے سے معاشرہ کا نظام درہم و برہم ہوجاتا ہے جس کے نتیجہ میں بدکاروں کے لئے میدان خالی ہوجاتا ہے، اس صورت میں دعا اس کے نتائج کو زائل نہیں کرسکتی کیونکہ یہ کیفیت ان کے اعمال کا قطعی اور حتمی نتیجہ ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دعا کے قبول ہونے کے لئے اس کے شرائط کی طرف توجہ کرنے سے بہت زیادہ ضروری ہے، جن میں سے بعض یہ ہیں:
۱۔ دعا کی قبولیت کے لئے ہر چیز سے پہلے دل اور روح کی پاکیزگی کی کوشش کرنا، گناہ سے توبہ اور اصلاح نفس ضروری ہے، اس سلسلہ میں خدا کے بھیجے ہوئے راہنماؤں کی زندگی سے ہدایات حاصل کرنا چاہئے، جس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) اس طرح ارشاد فرمارہے ہیں فرمایا ہے:«جب تم میں سے کوئی اپنے ربّ سے دنیا و آخرت کی کوئی حاجت طلب کرنا چاہے تو پہلے خدا کی حمد و ثنا کرے، پیغمبر اور ان کی آل پر درود بھیجے، اپنے گناہوں کا اعتراف کرے اورپھر اپنی حاجت طلب کرے»[سفینة البحار، ج:۱، ص:٤٤٨ و ٤٤٩]۔
۲۔ اپنی زندگی کی پاکیزگی کے لئے غصبی مال اور ظلم و ستم سے بچنے کی کوشش کرے اور حرام غذا نہ کھائے، جیسا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے منقول ہے: «جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو تو اس کے لئے اس کی غذا اور کاروبار کا حلال اور پاکیزہ ہونا ضروری ہے»[سفینة البحار، ج:۱، ص:٤٤٨ و ٤٤٩]۔
۳۔ فتنہ و فساد کا مقابلہ کرے اور حق کی دعوت دینے میں کوتاہی نہ کرے کیونکہ جو لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردیتے ہیں ان کی دعا قبول نہیں ہوتی، جیسا کہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے منقول ہے: «امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ضرور کرو، ورنہ خدا بُرے لوگوں کو تمہارے اچھے لوگوں پر مسلط کردے گا، پھر تمہارے اچھے لوگ دعا کریں گے تو ان کی دعا قبول نہیں ہوگی»[سفینة البحار، ج:۱، ص:٤٤٨]۔
۴۔ دعا قبول ہونے کی ایک شرط خدائی عہد و پیمان کو پورا کرنا ہے، ایمان، عمل صالح، امانت اور صحیح کام اس عہد و پیمان کا ایک حصہ ہیں، جو شخص اپنے پروردگار سے کئے گئے عہد کی پاسداری نہیں کرتا اسے یہ توقع نہیں ہونا چاہئے کہ پروردگار کی طرف سے دعا قبول ہونے کا وعدہ اس کے شامل حال ہوگا۔
*http://ur.welayatnet.com/node/2550
Add new comment