خلاصہ: اس مضمون میں اس بارے میں گفتگو کی جارہی ہے کہ حضرت امام علی (علیہ السلام) کیسے نقطۂ باء بسم اللہ ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے منقول ہے: "ان كل ما فى القرآن فى الفاتحة و كل ما فى الفاتحة فى بسم الله الرحمن الرحيم و كل ما فيه فى الباء و كل ما فى الباء فى النطقة و انا نقطة تحت الباء"، "یقیناً جو کچھ قرآن میں ہے وہ (سورہ) فاتحہ میں ہے اور جو کچھ فاتحہ میں ہے وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ اس (کی) باء میں ہے اور جو کچھ اس (کی) باء میں ہے وہ اس (کے) نقطہ میں ہے اور میں اس باء کے نیچے نقطہ ہوں"۔
وضاحت یہ ہے کہ قرآن کریم کائنات کے تمام حقائق و اَسرار کا حامل ہے، لیکن یہ وسیع معارف صرف قرآن کریم کے ظاہر سے نہیں ملتے، بلکہ حروف کی خصوصیات اور قرآن کریم کے بہت سارے بطون سے حاصل ہوتے ہیں کہ جن تک صرف پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور عترت طاہرین (علیہم السلام) کی رسائی ہے۔
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کا نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۵۸ میں یہ فرمان اسی حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے، آپؑ فرماتے ہیں: "...ذلِكَ الْقُرْآنُ فَاسْتَنْطِقُوهُ، وَلَنْ يَنْطِقَ، وَلَكِنْ أُخْبِرُكُمْ عَنْهُ: أَلاَ إِنَّ فِيهِ عِلْمَ مَا يَأْتِي، وَالْحَدِيثَ عَنِ الْمَاضِي، وَدَوَاءَ دَائِكُمْ، وَنَظْمَ مَا بَيْنَكُمْ"۔"...وہ قرآن ہے، اسے بُلوا کر دیکھو اور یہ خود نہیں بولے گا، بلکہ میں اس کی طرف سے تمہارے لیے ترجمانی کروں گا، یاد رکھو یقیناً اس میں مستقبل کا علم ہے، اور ماضی کی داستان ہے، تمہارے درد کی دوا ہے، اور تمہارے امور کی تنظیم کا سامان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: تفسیر تسنیم، آیت اللہ عبداللہ جوادی آملی]
Add new comment