خلاصہ: اگر کسی بھی حاجت کو خدا سے طلب کیا جائےتو نہ عزت کے جانے کا خطرہ رہتا ہے اور نہ شرمندگی کا سامنہ کرنا پڑہتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جب انسان کے پاس کچھ نہیں ہوتا تو وہ دوسروں سے مانگتا ہے تاکہ اس کی حاجت پوری ہوجائے اگر اس کی حاجت پوری ہاجائے تو جس نے اس کی حاجت کو پوری کیا ہے وہ اس سے شرمندگی کا احساسکرتا ہے اور وہ اس فکر میں رہتا ہے کہ وہ کب اپنا حسان جتائے اور اگر اس کی حاجت پوری نہ ہو تو اس کی عزت پامال ہوجاتی ہے لیکن اگر کسی بھی حاجت کو خدا سے طلب کیا جائےتو نہ عزت کے جانے کا خطرہ رہتا ہے اور نہ شرمندگی کا سامنہ کرنا پڑہتا ہے کیونکہ خدا نہ کسی پر اپنا احسان جتاتا ہے اور نہ ہی کسی کی عزت کو پامال کرتا ہے بلکہ وہ ہم سے بہتری جانتا ہے کہ کس چیز میں ہماری بھلائی ہے اور کونسی چیز میں ہمارا نقصان ہے، جس کے بارے میں خداوند متعا ل اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: «عَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَ عَسى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئاً وَ هُوَ شَرٌّ لَكُم وَ اللَّهُ يَعْلَمُ وَ أَنتُمْ لَا تَعْلَمُون[سورۂ بقره، آیت:۲۱۶] اور یہ ممکن ہے کہ جسے تم برا سمجھتے ہو وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور جسے تم دوست رکھتے ہو وہ برا ہو خدا سب کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو»، ایسے حکیم سے مانگنے کے بعد شکر گزاری بھی کرنا چاہئے کیونکہ جو چیز ہمارے لئےبہتر ہے وہ اس چیز کو ہمیں عنایت کرتا ہے جس کے بارے میں امام سجاد(علیہ السلام) اس طرح ارشاد فرمارہے ہیں: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَكَلَنِي إِلَيْهِ فَأَكْرَمَنِي وَ لَمْ يَكِلْنِي إِلَى النَّاسِ فَيُهِينُونِي؛ حمد ہے اس خدا کے لئے جس نے مجھ کو اپنے اوپر چھوڑا تو مجھ کو مکرم کیا اور لوگوں کی طرف مجھ کو نہیں چھوڑا کہ وہ مجھ کو ذلیل کرے»[مصباح المتهجد و سلاح المتعبد، ج۲، ص۵۸۲]۔
*مصباح المتهجّد و سلاح المتعبّد، شیخ طوسى، مؤسسة فقه الشيعة، بيروت، ۱۴۱۱ ق.ن
Add new comment