حضرت عباس(علیہ السلام) معصومین(علیهم السلام)  کے کلام میں

Wed, 06/07/2017 - 10:04

خلاصہ: حضرت عباس(علیہ السلام) نہ صرف شجاعت اور جنگ کے میدان میں نمونہ اور سرمشق ہیں بلکہ ایمان اور اطاعت حق کی منزل میں، عبادت اور شب زندہ داری کے میدان میں اور علم اور معرفت کے مقام پر بھی انسان کامل ہیں۔

حضرت عباس(علیہ السلام) معصومین(علیهم السلام)  کے کلام میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     ایمان اور یقین تک پہنچنے کے لئے ہم محتاج ہیں کسی راہنما کے جو ہماری روح کی تشنگی کو بجھائے اور ہماری ہدایت کریں، اولیاء الٰہی منتظر ہیں کہ ہم ان کی طرف رجوع کریں اور اس چشمہ ہدایت کے آب زلال سے اپنی روح کو سیراب کریں۔
     حضرت عباس(علیہ السلام) ان ہی اولیاء الٰہی میں سے ایک ہیں جو ہر سالک الی اللہ کے لئے اور ہر تشنہ ہدایت کے لئے ہادی برحق ہیں وہ نہ صرف شجاعت اور جنگ کے میدان میں نمونہ اور سرمشق ہیں بلکہ ایمان اور اطاعت حق کی منزل میں، عبادت اور شب زندہ داری کے میدان میں اور علم اور معرفت کے مقام پر بھی انسان کامل ہیں۔
     ذیل میں حضرت عباس(علیہ السلام) کے بارے میں معصومین(علیہم السلام) نے جو فرمایا ان میں سے بعض کوبیان کیا جارہا ہے تاکہ حضرت عباس(علیہ السلام) کی فضیلت کا ہمیں علم ہو اور ان کے چاہنے والے اپنی زندگی کو ان کی زندگی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں اور انہیں راہ حق پر چلنے کے لئے نمونہ عمل قرار دیں۔
     نقل ہوا ہے کہ قیامت کے دن رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)، حضرت علی(علیہ السلام) سے فرمائیگےکہ فاطمہ(سلام اللہ علیہا ) سے پوچھو کے امت کی نجات کے لئے تمھارے پاس کیا ہے؟
     حضرت علی(علیہ السلام) نے جب حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) سے فرمایا تو حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) نے  جواب دیا: یا اَمِیرَالمُومِنیِنَ کَفانا لِاجلِ هذا المَقامِ اَلیَدانِ المَقطُوعَتانِ مِن اِبنِی العَبّاسُ[۱] اے امیر المؤمنین میرے بیٹے عباس کے دو کٹے ہوئے بازو ان کی شفاعت کے لئے کافی ہے۔
     حضرت عباس(علیہ السلام) کے بارے میں امام سجاد(علیہ السلام) فرماتے ہیں: «رحم الله عمی العباس فلقد آثر وابلی وفدی اخاه بنفسه حتی قطعت یداه[۲] اللہ رحم فرمائے میرے چچا عباس پر بے شک انھوں نے ایثار اور فداکاری کی اور اپنی جان کو اپنے بھائی پر سے قربان کردیا یہاں تک کہ آپ کے دونوں بازو کاٹ دئے گئے».
     اور امام صادق(علیہ السلام) نے جناب عباس(علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا: «كان عمُّنا العبّاسُ نافذ البصيره صُلب الايمانِ، جاهد مع ابي‏عبدالله(ع) وابْلي’ بلاءاً حسناً ومضي شهيداً[۳] چچا عباس بانفوذ بابصیرت اور مستحکم ایمان کے مالک تھے امام حسین(علیہ السلام) کے ساتھ رہ کر راہ خدا میں جہاد کیا اور بہترین امتحان دیا اور مقام شہادت پر فائز ہو گئے۔
     امام زمان(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) زیارت ناحیه میں حضرت عباس کو خطاب کرتے ہوئے فرمارہے ہیں: «السلام علی ابی الفضل العباس المواسی اخاه بنفسه[۴] ابوالفضل العباس پر سلام ہو، انھوں نے اپنے بھائی کی ہمدردی میں اپنی جان کی قربانی دیدی».
نتیجہ:
     حضرت عباس(علیہ السلام) کی وہ فضلت ہے کہ معصومین(علیہم السلام) نے آپ کو بہتر سے بہتر صفات کے ذریعہ یاد کیا ہے کسی نے با بصیرت، کسی نے عبد صالح اور اور کسی نے با نفوز کہا ہے۔

..................................
حوالے:
[۱]سوگنامه آل محمد، محمدی اشتهاردی، ص۵۲۹، انتشارات ناصر،  قم،۱۳۷۰.
[۲] بحار الانوار، محمد باقرمجلسى، ج۴۴، ص۲۹۸، دار إحياء التراث العربي ،بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق.
[۳] در سوگ امیر آزادی(ترجمہ مثیر الاحزان)،  ابن نما حلی، ص۲۵۴، حاذق،  ایران، قم۔
[۴] المزار الکبیر، ابن مشھدی،ص۴۸۹، دفتر انتشارات اسلامی،قم، ۱۴۱۹ق۔

 

kotah_neveshte: 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     نقل ہوا ہے کہ قیامت کے دن رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)، حضرت علی(علیہ السلام) سے فرمائیگےکہ  فاطمہ(سلام اللہ علیہا ) سے پوچھو کے امت کی نجات کے لئے تمھارے پاس کیا ہے؟
     حضرت علی(علیہ السلام) نے جب حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) سے فرمایا تو حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) نے جواب دیا: یا اَمِیرَالمُومِنیِنَ کَفانا لِاجلِ هذا المَقامِ اَلیَدانِ المَقطُوعَتانِ مِن اِبنِی العَبّاسُ[سوگنامه آل محمد، ص۵۲۹] اے امیر المؤمنین میرے بیٹے عباس کے دو کٹے ہوئے بازو ان کی شفاعت کے لئے کافی ہے۔
     حضرت عباس(علیہ السلام) کے بارے میں امام سجاد(علیہ السلام) فرماتے ہیں: «رحم الله عمی العباس فلقد آثر وابلی وفدی اخاه بنفسه حتی قطعت یداه[بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۹۸] اللہ رحم فرمائے میرے چچا عباس پر  بے شک انھوں نے ایثار اور فداکاری کی اور اپنی جان کو اپنے بھائی پر سے قربان کردیا یہاں تک کہ آپ کے دونوں بازو کاٹ دئے گئے».
     اور امام صادق(علیہ السلام) نے جناب عباس(علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا: «كان عمُّنا العبّاسُ نافذ البصيره صُلب الايمانِ، جاهد مع ابي‏عبدالله(ع) وابْلي’ بلاءاً حسناً ومضي شهيداً[در سوگ امیر آزادی،  ص۲۵۴] چچا عباس بانفوذ بابصیرت اور مستحکم ایمان کے مالک تھے امام حسین(علیہ السلام) کے ساتھ رہ کر راہ خدا میں جہاد کیا اور بہترین امتحان دیا اور مقام شہادت پر فائز ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوگنامه آل محمد، محمدی اشتهاردی، ص۵۲۹، انتشارات ناصر،  قم،۱۳۷۰.
بحار الانوار، محمد باقرمجلسى، ج۴۴، ص۲۹۸، دار إحياء التراث العربي ،بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق.
در سوگ امیر آزادی(ترجمہ مثیر الاحزان)، ابن نما حلی، ص۲۵۴، حاذق،  ایران، قم۔

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 48