چکیده:ہماری خواتین کو چاہئے کہ شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ
خداوند متعال نے مرد و عورت کو ایک ہی اصل سے خلق کرنے کے باوجود ان میں انکی الگ الگ خصوصیات اور امتیازات کے پیش نظر ان میں سے ہر ایک کو کچھ خاص کردار کو ادا کرنے کے لئے دیا ہے کہ جو فطرتی طور پر ان دونوں کی فردی اور اجتماعی رشد و ترقی کے لئے بہت ضروری اور مؤثر ہے۔
علامہ طباطبائی قدس سرہ نے اس آیت’’ الرّجال قوّامون۔۔۔۔‘‘(سورہ نساء آیت ۳۴) کی تفسیر میں اس طرح بیان کیا :خدا وند متعال نے قران مجید میں بیان کیا ہے کہ تمام انسان بلا کسی امتیاز کے، چاہے وہ مرد ہوں یا عورت، سب ایک ہی درخت کی شاخیں اور بشریت کے قدرتی وجود کے اجزا واعضاء ہیں؛ اور معاشرہ اپنے وجود اور شناخت کے لئے ان اجزا کا محتاج ہے۔جس قدر مردوں کا محتاج ہے اسی طرح عورتوں کا بھی محتاج ہے؛ جیسا کہ خدا نے فرمایا:’’ بعضکم من بعض‘‘ (تم میں سے بعض، بعض سے ہیں)۔ یہ عام حکم، اس بات کے منافی نہیں ہے کہ مرد و عورت اپنی زمرہ میں مخصوص خصلتوں کے حامل ہوں؛ مثلا مرد حضرات شدت و قوت کے حامل ہوں اور خواتین نرم مزاج اور رحم دل ہوں کیونکہ انسانی فطرت، تکوینی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی ان تمام خصلتوں کی محتاج ہے(۱)۔
اس مقام پر دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ مرد و عورت دونوں ہی ایک دوسرے کے کردار کو قبول کریں اور نہ صرف یہ کہ اپنے رابطے کی خاطر ان کردار کو مجروح نہ کریں بلکہ ان کردار کی بلندی اور ترقی کے لئے بھی قدم بڑھائیں اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس طرح کے زاویہ نگاہ اور عمل کا فائدہ بے پناہ ہے کہ جو دوسروں سے پہلے خود مرد و عورت کو حاصل ہوتا ہے۔ اور اس امر میں کوتاہی کا نقصان ناقابل تلافی ہے۔
جب ہم اس عنوان سے جناب زہراؐ کی سیرت پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسے بہت سے بے نظیرنمونے ملتے ہیں جس میں آپؑ نے ایک خاتون کی صورت میں شوہر کے کردار اور اہمیت کو قبول کیا ہے اور اس کو اور مستحکم بنانے کے لئے کوششیں بھی کی ہیں اور اپنے اس عمل کو بعد کی نسلوں کے لئے مشعل راہ قرار دیا؛ جبکہ ہماری خواتین اس طریقۂ کار سے غافل ہیں اور جسکے نتیجہ میں مختلف طرح کی مشکلات سے دوچار ہیں۔
لباس، گھر اور دیگر آسایش کے سامان، یہ ان مسائل میں سے ہیں کہ ہر زوجہ اپنے شوہر سے اس کی توقع رکھتی ہے اور کبھی کبھی تو ان مسائل کی خاطر آپسی زندگی میں کشیدگی بھی پیدا ہوجاتی ہے؛ مگر جناب زہراؐ کبھی بھی اپنے شوہر کو ایسے سامان فراہم کرنے کے زحمت نہیں دیتی تھیں اور نہ ہی کبھی کوئی فرمایش کرتی تھیں یہاں تک کہ زندگی کے آخری ایام میں مولائے کائنات انھیں کچھ خواہش کرنے کے لئے قسم دیتے ہیں؛ تو اس قسم کی وجہ سے آپ اپنے کھولتی ہیں اور ایک انار کی فرمایش کرتی ہیں جسے مہیہ کرنے کے لئے امیر کائناتؑ خوشی سے گھر سے باہر جاتے ہیں۔(۲)
اب سوال یہ ہے کہ شہزادی کونینؑ کا اپنے شوہر سے کسی چیز کا مطالبہ نہ کرنے کا راز کیا تھا؟ شاید فوری طور پر اس کی وجہ قناعت کو کہا جائے ، یہ وجہ بالکل صحیح ہے لیکن اس مسئلہ پر اگر گہرائی سے نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ چونکہ جناب زہراؑ کی مولائے کائنات سے نکاح کا معیار ایمان پر مبنی تھا اس لئے اس بات پر مکمل اعتقاد تھا کہ اگر مومن مرد کے پاس قدرت ہوگی تو وہ اپنی زوجہ کے ضروری مطالبات کو ضرور پورا کرےگا؛ اس وجہ سے کسی حیرانی اور تشویش کا مقام نہیں تھا آپؑ کے لئے۔ ممکن ہے کہ آپ ؑ کا اپنے شوہر سے کسی چیز کی فرمایش کر کے ان کو زحمت میں نہ ڈالنے کا مقصد یہ بھی رہا ہو کہ خواہش کو پورا نہ کر پانے کی صورت میں شوہر کو شرمندہ نہ ہونا پڑے؛ یہی وہ ظریف توجہ دی جناب زہراؐ کی اپنے شوہر کی عزت نفس کی طرف جس کو آپ پامال کرنے کا خیال بھی نہیں کرتی تھیں۔
ہماری خواتین کو چاہئے کہ شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ جناب زہراؐ سے حاصل کریں اور مرد حضرات اپنی زوجہ کے ساتھ پیش آنے طریقہ مولائے متقیان کو مشعل راہ قرار دے کر سیکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱۔ ترجمۂ تفسیر المیزان، ج۴، ص ۴۰۵ اور ۴۰۶، سید محمد حسین طباطبائی۔
۲۔ ریاحین الشریعہ، ج۱، ص ۱۴۳۔
Add new comment