حضرت علی اور حضرت داوود کی قضاوت میں مماثلت

Sun, 04/16/2017 - 11:17

خلاصہ:

 امام  علی علیہ السام  کا ایک مردہ شخص کے مال کے بارہ میں فیصلہ۔

حضرت  داوود علیہ السلام  کی طرح حضرت علی  علیہ السلام کی قضاوت

ایک دن امام علی علیہ السلام  مسجد میں داخل ہوئے کیا دیکھتے ہیکہ ایک جوان ہے جو گریہ کررہا ہے اور لوگ  اسےحلقہ میں لئے ہوئے ہیں اورتسلی دیرہے ہیں ، حضرت علی علیہ السلام نے اس سے پوچھا کہ  گریہ کاسبب کیا ہے؟
اس نے عرض کیا : یا علی!شریح قاضی  نے  میرے خلاف ایک فیصلہ کیا  ہےنہیں معلوم وہ فیصلہ صحیح ہےیا غلط!
اس جوان نے کہا   یہ لوگ میرے والد کے ساتھ سفر  پرگئے تھے، اور اب لوٹ کر آئے ہیں لیکن میرے والد انکے ساتھ نہیں ہیں، جب میں ان لوگوں سے اپنے والد کے بارے سوال کر رہاہوں تو یہ کہرہے ہیکہ وہ مرچکے ہیں۔
میں نو سوال کیا کے میرے والد کا مال کیا ہوا؟
وہ لوگ کہرہے ہیکہ  تمھارے والدکےپاس کچھ بھی نہیں تھا ، میں ان لوگوں کو لیکر شریح قاضی کے پاس گیا ، شریح قاضی نے ان سے کہا کہ قسم کہاؤ، ان لوگوں نےقسم کھالی، اور وہ لوگ چلے گئے لیکن میں جانتا ہوں کہ  میرے والد کہ پاس بہت زیادہ  مال تھا جو وہ اپنے ساتھ لیکر گئے تھے۔
امام علی  علیہ السلام  اس جوان کہ ساتھ سب لوگوں کولیکر  شریح قاضی کہ پاس گئے،  امام علی علیہ السلام نے فر مایا: اے شریح! تم نو ان لوگوں کے درمیان کس طر ح فیصلہ کی؟
 قاضی شریح نے کہا: اس جوان نے ادعا کیا ہیکہ اسکےوالد ان لوگوں کے ساتھ سفر پر گئے تھے اور لوٹ کر نہیں آئے، میں نے ان لوگوں  سے سوال کیا  کہ اس جوان کے والد کہا گئے، ان لوگوں نے جواب دیا کہ وہ مرگئے؛ میں نے پوچھا کہ اسکے والد کا مال کہا گیا ؟ ان لوگوں نے جواب دیا  کہ  انکے پاس کچھ بھی  نہیں تھا ؛ میں نے جوان سے پوچھا: تمھارے پاس کوئی گواہ ہے؟ جوان نے کہا: نہیں، میں نے ان لوگوں سے قسم کھانے کے لئے کہا، ان لوگوں نے قسم کھا لی۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: ہیہات! اس واقعہ میں اس طریقہ سے فیصلہ کرتے ہیں؟  خدا کی قسم اس واقعہ میں اس طریقہ سے حکم کرونگا کہ مجھسے پہلے سوائے  حضرت داؤؤد کہ کسی نے بھی نہیں کیا، پھر حضرت نے فرمایا:  اے قنبر! لشکر کے پہلوانوں کو لیکر آؤ۔
جب پہلوان حاضر ہوئے،  تو امام علیہ السلام نےان لوگوں سے خطاب کرکے  فر مایا: تم لوگ کیا سمجھتے ہو ، میں نہیں جانتاکہ  تم لوگوں نے اس جوان کے والد کے ساتھ کیا کیا ہے؟ پھر آپ نے فرمایا: ان لوگوں کو الگ الگ کردو اور سب کو  ایک ایک ستون کے پیچھے  لیکر جاؤ اور سب کے آنکھوں کو باندھ دو۔
لوگ امام علیہ السلام کے اطراف جمع ہوگئے، امام علیہ السلام نے فرمایا: میں جب بھی «الله اكبر» کہو توتم لوگ بھی اللہ اکبر کہنا۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے ان میں سے ایک کو بلوایا اور اسکی انکھوں سے پٹی کو کھولا  اور فرمایا : ای عبداللہ بن ابی رافع! میں جو جو کہرہا ہوں اسے لکھوں؛ پھر امام علیہ السلام نے سوال کرناشروع کیا حضرت نے پوچھا:
اس جوان کے والد کےساتھ تم لوگ سفر کے لئے کب گئے؟
اس نے کہا: فلاں روز،
امام علیہ السلام نے پوچھا: کس  مہینہ میں؟
اس نے کہا: فلاں مہینہ میں،
امام علیہ السلام نے پوچھا:جب اس شخص کا انتقال ہو تو تم لوگ کہا تک پہونچے تھے؟
اس نےکہا: فلا ں جگہ پر،
امام علیہ السلام نےپوچھا: کس کے گھرمیں اس شخص کاانتقال ہوا؟
اس نے کہا: فلاں شخص کے گھر میں،
امام علیہ السلان نے پوچھا : اس شخص کو کونسا مرض لاحق ہواتھا؟
اس نے کہا: فلاں مرض،
امام علیہ السلام نے پوچھا: کتنے دن  بیمار تھا؟
اس نے اس شخص کی بیماری کے دن بتائے،
اسکے بعد امام علیہ السلام نے تمام احوال پوچھے، کہ  اس شخص کا انتقال کس دن ہوا؟ اور کس دن غسل دیا گیا؟ اور اسکوکب دفن کیا؟ اسکا کفن کس کپڑے کا تھا؟ اور اسکی نماز کب پڑھی گئی؟ اور اسکو قبر میں کب اتاراگیا؟
جب امام علیہ السلام کے سوالات ختم ہوگئے امام علیہ السلا م نے «الله اكبر» کہا  ، لوگوں نےبھی بلند آواز کے ساتھ  «الله اكبر» کہا،  جب تکبیر کی آواز سنی تو اس شخص کے دوستوں نےسمجھاکہ اس نے  اس شخص کے قتل کا اقرار کر لیا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اسکے انکھوں پر دوبارہ کپڑ ا باندھ دو، اور اسکو اسکی جگہ لیکر جاؤ۔
اور اسکے بعد دوسرے شخص کو طلب کیا اور اسکی انکھوں سے کپڑے کو کھولا اور فر مایا:  تم یہ سمجھ رہے ہو کہ میں نہیں جانتا کہ تم  نے اس شخص کے ساتھ کیا کیا؟
اس شخص نے کہا: اے امیر المؤمنین میں ان لوگوں میں سے ایک تھا، لیکن اسکے قتل کرنے پر راضی نہیں تھا اور اس شخص کے  قتل کا اقرار کر لیا، اسکے بعد امام علیہ السلام  نے ایک کے بعد ایک سب کوطلب کیا، سب نے  اس شخص کے قتل کا اقرار کیا  کہ ہم لوگوں نے ملکر اس شخص کو قتل کیاہے، امام علیہ السلام نے  ان لوگوں سے مال کو لیا اور  اس جوان کے حوالہ کردیا، اور  خون بہا کے لئے ان لوگوں  پر حکم کو جاری کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
[1]۔ سایت تبیان۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 92