چکیده: مرحوم آیت اللہ سید محمد حسین حسینی طہرانی کی تقاریر جو روزہ کے سلسلے میں تھیں، ان کو تحریر کرتے ہوئے کتاب انوارالملکوت کے نام سے شائع کیا گیا، یہ مقالہ اسی کتاب سے ماخوذ ہے، اس میں انہوں نے خاص روزہ کی سات شرائط کا تذکرہ کیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مرحوم آیت اللہ سید محمد حسین حسینی طہرانی جو عصر حاضر کے علماء اور عرفاء میں سے تھے اور ان کی قبر مبارک حضرت امام رضا (علیہ السلام) کے حرم مطہر میں ہے، آپ کی کتب کے علاوہ کچھ تقاریر جو آپ نے ماہ مبارک رمضان ۱۳۹۰ ھ٫ق میں خطاب فرمائی، انہیں تحریر کیا گیا جو کتاب انوارالملکوت کے نام سے شائع کی گئیں۔
آپ نے اس کتاب میں روزہ اور روزے کی قسموں یعنی عام روزہ، خاص روزہ اور خاص الخاص روزے کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ مندرجہ ذیل باتیں "خاص روزہ" کی صفات کے سلسلے میں ہیں جسے مختصر طور پر بیان کیا جارہا ہے:
علامہ طہرانی کے بیان کے مطابق، خاص روزہ وہ روزہ ہے جس میں روزہ دار کو چاہیے کہ اپنی آنکھ، کان اور زبان کو مکروہات سے بچائے، اس کے لئے سات چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے:
۱۔ آنکھ کو ہر بری اور مکروہ چیز کی طرف دیکھنے سے بچانا، کیونکہ آنکھ جب بری چیز کو دیکھتی ہے تو دل بھی اس کے ساتھ میں چل پڑتا ہے اور پھر سامان گناہ فراہم ہو جاتا ہے۔ لہذا دل کی حفاظت کے لئے آنکھ کو حرام چیزوں سے بچانا چاہیے۔
۲۔ زبان کو ہر اس بات سے بچانا جس کو بیان کرنا مناسب نہیں ہے، جیسے جھوٹ، غیبت، چغلخوری، گالی گلوچ، لڑائی اور کلی طور پر فضول یا بے فائدہ باتیں کرنا۔ زبان کی حرکت، دل کو حرکت میں لاتی ہے۔ اگر زبان، خدا کے ذکر سے مترنم ہوجائے تو دل بھی خدا کے حرم میں سیر کریگا اور اگر زبان گناہ کے لئے حرکت میں آئے تو دل بھی شیطان کی وادی میں سفر میں کریگا۔
۳۔ کان کی حفاظت ہر اس چیز سے جو آدمی کے لئے حرام اور مکروہ قرار دی گئی ہے، بلکہ ان باتوں کا سننا جو مباح ہوں مگر ان سے آدمی کو کوئی فائدہ نہ ہو۔ جس بات کا بولنا حرام ہو، اس کا سننا بھی حرام ہے۔ لہذا غیبت اور چغلخوری اور ان جیسے کام حرام ہیں اور روزہ دار کو ان سے پرہیز کرنا چاہیے۔
۴۔ جسم کے دیگر حصوں کو گناہ سے بچانا، جیسے ہاتھ، پاوں، بدن کی کھال اور جسم کے بال۔ گناہ کو انجام دینا، دل کو سیاہ کردیتا ہے اور عالم نور سے ظلمت کی طرف کھینچ لاتا ہے اور گناہ کا روزہ کے وجوب سے کہ جو تقوا کے حصول اور طہارت کا باعث ہے، کوئی تعلق نہیں ہے۔
۵۔ شکم کی حفاظت حرام اور شبہ ناک کھانا کھانے سے، افطاری اور سحری کے وقت اور تمام رات کے دوران، کیونکہ پیٹ کو دن کے دوران حلال کھانے سے اور رات کو حرام کھانے سے بچانے کا بہت فائدہ ہے۔
۶۔ افطاری کے وقت زیادہ کھانے سے پرہیز کیا جائے اور پیٹ بھر کر نہ کھایا جائے۔ روح کی صحت کا بدن کی صحت سے مکمل طور پر تعلق ہے اور پیٹ بھر کر کھانا، ہر چیز سے بڑھ کر بدن کے لئے نقصان دہ ہے۔
۷۔ افطار کے بعد روزہ دار کا دل ، خوف و رجا کے درمیان مضطرب رہے، کہیں اسے تکبر اور خودپسندی نہ گھیر لے کیونکہ اسے کیا معلوم کہ اس کا روزہ قبول ہوا ہے اور اللہ کی بارگاہ کے مقرب افراد میں سے ہے یا اس کا روزہ رد کردیا گیا ہے اور وہ راندہ درگاہ الہی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
میگزین اشارات - تابستان سال ۱۳۹۴ شماره ۱۵۹ سے ماخوذ۔ کاوش: محمود سوري
Add new comment