رمضان قرآن کی نظر میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خداوند متعال نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 183 سے 185 تک میں روزہ کا واجب ہونا اور اسکی تاریخ، حکمت اور فلسفہ کو بیان کیا ہے اور روزہ کا فلسفہ انسان سازی، تزکیہ اور تقوی کو قرار دیا ہے۔

رمضان قرآن کی نظر میں

 (سوره بقره، آيات 185-183) میں خداوند متعال کا فرمان ہے کہ صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اس طرح لکھ دئے گئے ہیں جس طرح تمہارے  پہلے والوں پر لکھ دئے گئے تھے۔ شاید تم اس طرح متقی بن جاو۔  یہ روزے صرف چند دنوں کے ہیں لیکن اس کے بعد بھی کوئی شخص مریض ہے یا سفر میں ہے تو اتنے ہی دن دوسرے زمانے میں رکھ لے گا۔ اور جو لوگ صرف شدت اور مشقت کی بنا پر روزے نہیں رکھ سکتے وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں اور اگر اپنی طرف سے زیادہ نیکی کر دیں گے تو زیادہ بہتر ہے لیکن روزہ رکھنا بہر حال تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم صاحبان علم و خبر ہو۔ ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس  میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کی کھلی نشانیاں موجود ہیں لہذا جو شخص اس مہینہ میں حاضر رہے اس کا فرض ہے کہ روزہ رکھے اور جو مریض یا مسافر ہو وہ اتنے ہی دن دوسرے زمانے مِیں رکھے، خدا تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے، زحمت نہیں چاہتا اور اتنے ہی دن کا حکم اس لیے ہے کہ تم عدد پورے کر دو اور اللہ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کا اقرار کر لو اور شاید تم اس طرح اس کے شکرگزار بندے بن جاو۔
تفسیر:
روزہ انسانی زندگی میں تقوی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ عمل صرف خدا کے لیے ہوتا ہے اور اس میں ریا کاری کا امکان نہیں ہے، روزہ صرف نیت ہے اور نیت کا علم صرف پروردگار کو ہے پھر روزہ قوت ارادی  کے استحکام کا بہترین ذریعہ ہے، جہاں انسان حکم خدا کی خاطر ضروریات زندگی اور لذات حیات، سب کو ترک کر دیتا ہے اور اگر یہی جذبہ تمام سال باقی رہ جائے تو تقوی کی بلند ترین منزل حاصل ہو سکتی ہے۔
روزہ کی زحمت کے پیش نظر دیگر اقوام کا حوالہ دے کر اطمیان دلایا گیا ہے اور پھر سفر اور بیماری میں معافی کا اعلان کیا گیا ہے اور بیماری میں شدت یا سفر میں زحمت کی شرط نہیں لگائی گئی ہے۔ یہ انسان کی جہالت ہے کہ خدا آسانی دینا چاہتا ہے اور انسان آج اور کل کے سفر کا مقابلہ کرکے دشواری پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس طرح خلاف حکم خدا روزہ رکھ کر بھی تقوی سے دور رہنا چاہتا ہے۔
قرآن مجید میں شاید کا  لفظ علم خدا کی کمزوری کی بنا پر نہیں، بشر کی کمزوری کی بنا ہر استعمال ہوا ہے۔ صرف روزہ ہی تقوی کے لیے کافی نہیں ہے۔ روزہ کی کیفیت کا تمام زندگی باقی رہنا ضروری ہے اور یہ ضروری ہے کہ سارا وجود روزہ دار رہے۔ برے خیالات، گندے افکار، بد اعمالی، بدکرداری وغیرہ زندگی میں داخل نہ ہونے پائے۔
روزہ وہ بہترین عبادت ہے جسے پروردگار نے استعانت کا ذریعہ قرار دیا ہے اور آل محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مشکلات میں اسی روزہ سے کام لیا ہے، کبھی نماز ادا کی ہے اور کبھی روزہ رکھا ہے۔ یہ روزہ ہی کی برکت تھی کہ جب بیماری کے موقع پر آل محمد [ص] نے روزہ کی نذر کر لی اور وفائے نذر میں روزہ رکھ لیے تو پروردگار نے پورا سورہ "دہر" نازل کر دیا۔ آل محمد[ص]  کے ماننے والے اور سورہ دہر کی آیات پر وجد کرنے والے کسی حال میں روزہ سے غافل نہیں ہو سکتے اور صرف ماہ رمضان میں نہیں بلکہ جملہ مشکلات میں روزہ کو سہارا بنا سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

http://www.ahl-ul-bayt.org/ur.php/page,26906A60330.html?PHPSESSID=50811d...

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 45