ماہ رمضان اور قرآن کریم سے انس

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: ماہ رمضان قرآن کریم کی بہار ہے، قرآن کریم سے اس مہینہ میں خاص طور پر فیض حاصل کیا جاسکتا ہے کیونکہ ماہ رمضان، نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں قرآن سے مانوس ہوتے ہوئے تلاوت کے علاوہ قرآن کی آیات کی گہرائی پر بھی غور اور تدبر کرنا چاہیے، اہل بیت (علیہم السلام) کی سیرت اس بات کی تعلیم دیتی ہے۔

ماہ رمضان اور قرآن کریم سے انس

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ماہ رمضان قرآن کریم کی بہار
ماہ مبارک رمضان، قرآن کریم کی بہار اور قرآن سے انس پیدا کرنے کا مہینہ ہے۔
یہ وہ مہینہ ہے جس میں انسان بہترین طریقے سے ذہنی اور عملی طور پر قرآن کریم سے فیضیاب ہوسکتا ہے۔
وہ مہینہ ہے جس کی شب قدر میں رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے قلب مطہر کو پورے قرآن، امین وحی سے موصول ہوا۔
وہ مہینہ ہے جس میں ہم روزہ رکھنے، عبادت، دعا و مناجات اور معنوی تیاری کرنے کے ذریعے، تعلیم قرآن حاصل کرنے کا استقبال کرتے ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ خالص روزہ کی بھرپور برکات اور اس کے ساتھ دیگر عبادتوں اور دعاؤں کی روشنی میں، قرآن سے اپنا رابطہ مزید مضبوط کریں۔
قرآن کریم، ماہ رمضان کی روح ہے جس نے اس مہینہ کی عظمت کو بڑھا دیا ہے۔
قرآن کریم، ماہ رمضان کا وہ دل ہے جس دل کی دھڑکنوں کے بغیر روزہ داروں کی معنوی حیات کی رگوں میں حقیقت کی لہر نہیں دوڑ سکتی۔
قرآن کریم، دلوں کی بہار ہے اور قرآن کریم کی بہار، ماہ رمضان ہے۔ جیسا کہ حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "لِكُلِّ شي‏ءٍ رَبيعٌ و رَبيعُ القُرآنِ شَهرُ رَمَضان"[1] ہر چیز کی کوئی بہار ہے اور قرآن کی بہار ماہ رمضان ہے"۔
اور حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) قرآن مجید کی شان میں فرماتے ہیں: "وَ تَفَقَّهُوا فِيهِ فَاِنَّهُ رَبيعُ الْقُلوبِ " اور قرآن میں غور کرو کیونکہ قرآن دلوں کی بہار ہے"۔
اور حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: " وَ قَلْبُ شَهْرِ رَمَضان لَيْلَةُ الْقَدْرِ"[2]، "اور ماہ رمضان کا دل شب قدر ہے"۔
لہذا ماہ رمضان کی بہت ساری برکات، قرآن کریم کے سلسلے میں ہیں اور اس مہینہ میں قرآن کے نورانی احکام کو دلوں کے کھیت میں کاشت کرنا چاہیے تاکہ پروان چڑھیں اور قرآن کے پھَل کو اس مہینہ میں روح کی خوراک بنائیں اور اپنے دل کی قوت کو قرآن کی برکات کے سائے میں مضبوط کریں اور اس طرح فیضاب ہونا قرآن سے حقیقی انس پانے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

قرآن کریم سے مانوس ہونا
"انس" لفظی لحاظ سے "وحشت" (پریشانی) کا مخالف ہے[3]۔ انسان کا کسی چیز سے انس پانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس چیز سے کسی قسم کی پریشانی اور اضطراب نہیں ہے اور اس کے ساتھ سکون پاتا ہے۔
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "مَنْ آنَسَ بِتَلاوَةِ الْقُرآنِ، لَمْ تُوحِشْهُ مُفارَقَةُ الاِخْوانِ"[4]، "جو شخص تلاوت قرآن سے مانوس ہوگیا تو اسے دوستوں کی جدائی سے وحشت نہیں ہوگی"۔
امام سجاد (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں: " لَوْ ماتَ مِنْ بَيْنِ الْمَشْرِقِ وَالْمَغرِبِ لَمَااسْتَوْحَشْتُ، بَعْدَ اَنْ يَكُونَ الْقُرْآنُ مَعِي"[5]، " اگر تمام لوگ مشرق سے مغرب تک مرجائیں اور قرآن میرے ساتھ رہے تو مجھے کوئی خوف نہیں ہوگا"۔
یہاں پر یہ سوال پیش آتا ہے کہ قرآن سے انس کی حقیقت کیا ہے جو انسان کو اتنا مضبوط بنادیتا ہے کہ وحشت کو اس سے دور کردیتا ہے؟
جواب یہ ہے کہ انس پانے کا مطلب ہمدم ہونا ہے، جیسے شیرخوار بچہ ماں کے سینہ سے مانوس رہتا ہے ، جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے اندھے منافقین سے جو آپؑ کو موت کی دھمکی دیتے تھے، فرمایا: " وَاللّهِ لاَبْنُ اَبِي طالِبٍ آنَسُ بِالْمَوْتِ مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْيِ اُمِّهِ"[6] اللہ کی قسم! ابوطالب کا فرزند موت سے اس سے زیادہ مانوس ہے جتنا بچہ اپنی ماں کے سینہ سے مانوس ہوتا ہے۔
حقیقی عارف وہ ہے جو خدا اور خدا کے کلام سے ایسا مانوس ہوجائے جیسے حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے آیت "يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّ‌كَ بِرَ‌بِّكَ الْكَرِ‌يمِ"[7]، " اے انسان تجھے رب کریم کے بارے میں کس شئ نے دھوکہ میں رکھا ہے" کی وضاحت میں فرمایا: "وَكُنْ للّهِ مُطيعا وَ بِذِكْرِهِ آنِسا"[8]، "اللہ کے اطاعت گذار بن جاؤ اور اس کی یاد سے انس حاصل کرو"۔
قرآن کریم سے مانوس ہونا، قرائت قرآن سے ہٹ کر ہے، اگرچہ قرائت انس کا مقدمہ ہے۔ قرآن کریم سے انس کی کچھ شرطیں ہیں جن میں سے پہلی شرط قرآن سے محبت ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص عمر بھر قرآن کی قرائت کرے لیکن قرآن سے محبت نہ کرے۔ یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن زندہ حقیقت ہے، قرآن کریم سے انس یعنی انسان دن رات قرآن کا نظارہ کرے، اس کی زیارت کرے، اس کا بوسہ لے، قرآن کو اپنے ساتھ رکھے اور لمحہ بھر اس سے غافل نہ ہو، اگر ایسا کرے گا تو قرآن کریم اپنا اثر دکھائے گا۔ یہ کام ہر عام آدمی کرسکتا ہے اور اس کام کی حد تک کا فیض حاصل کرسکتا ہے۔

ماہ رمضان، قرآن کی تجلی گاہ اور تلاوت قرآن کا موقع
کیونکہ ماہ رمضان، نزو ل قرآن کا مہینہ، اللہ کا مہینہ اور تہذیب و تزکیہ کا مہینہ ہے اور قرآن جو اس مہینہ کی شب قدر میں نازل ہوا ہے، رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کے قلب مبارک پر نازل ہوا ہے، لہذا ماہ رمضان قرآن کی تجلی گاہ اور قرآن سے انس کا مہینہ ہے۔ روزہ دار مومنین اس مہینہ میں اللہ کے مہمان ہیں اور قرآن کے بابرکت دسترخوان پر بیٹھے ہیں لہذا تلاوت قرآن سے مانوس ہونا چاہیے اور قرآن کی آیات میں تدبر اور غور و خوض کرنے کے ذریعے قرآن کے مفاہیم سے فکری اور عملی فیض حاصل کرتے ہوئے، اپنے ملکوتی کمال میں اضافہ کرنا چاہیے۔
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خطبہ شعبانیہ میں ارشاد فرمایا: "هُوَ شَهْرُ دُعِيتُمْ فيه اِلي ضِيافَةِ اللهِ ... وَ مَنْ تَلافِيهِ آيَةً مِنَ الْقُرآنِ كانَ لَهُ مِثْلُ اَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرآنَ فِي غَيْرِهِ مِنَ الشّهُورِ"[9]، "ماہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں تمہیں اللہ کی مہمانی کی دعوت دی گئی ہے… تم میں سے جو شخص اس مہینہ میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے، اس کا ثواب اس شخص کے برابر ہے جو ماہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ختم قرآن کرے"۔
ماہ رمضان کی دعاؤں میں قرآن کی تلاوت کا تذکرہ ہوا ہے۔ ماہ رمضان ک روزانہ کی دعائیں جو رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) سے نقل ہوئی ہیں، ان میں سے دوسرے دن کی دعا میں یہ فقرہ ہے: " اَللّهُمَّ وَفِقْني فِيهِ لِقَرائَةِ آياتِكَ"[10]، "بارالہا! مجھے اِس دن میں اپنی آیات کی قرائت کی توفیق عطا فرما" اور بیسویں دن کی دعا میں ہے: " اَللّهُمَّ وَفِّقْني فِيهِ لِتِلاوَةِ الْقُرآنِ"[11] بارالہا! مجھے اِس دن میں تلاوت قرآن کی توفیق عطا فرما"۔

قرآن سے مانوس ہونے کے ارکان
۱۔ آیات قرآن کی تلاوت:
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: "نَوِّروا بُیوتَکُم بِتِلاوَةِ القُرآنِ"[12]، "اپنے گھروں کو تلاوت قرآن کے ذریعے نورانی کرو"۔
۲۔ تدبّر اور غور و خوض:
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اَلا لا خَیرَ فی قِراءَةٍ لَیسَ فیها تَدَبُّرٌ" [13]، آگاہ رہو کہ جس قرائت میں تدبّر نہ ہو، اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔
۳۔ قرآن کے دستورات پر عمل:
رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کا ارشاد گرامی ہے: "و من قرء القرآن و لم يعمل به حشرہ الله يوم القيمة اعمى"[14] ، "اور جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل نہ کر تو اللہ اسے قیامت کے دن اندھا محشور کرے گا"۔

قرآن کے قاریوں کی قسمیں:

"القُرّاءُ ثلاثةٌ : قارئٌ قَرَأَ (القرآنَ) لِيَستَدِرَّ بهِ المُلوكَ و يَستَطيلَ بهِ علَى الناسِ فذاكَ مِن أهلِ النارِ، و قارئٌ قَرَأَ القرآنَ فَحَفِظَ حُروفَهُ و ضَيَّعَ حُدودَهُ فذاكَ مِن أهلِ النارِ ، و قارئٌ قَرَأَ (القرآنَ) فاستَتَرَ بهِ تَحتَ بُرنُسِهِ فهُو يَعمَلُ بمُحكَمِهِ و يُؤمِنُ بمُتَشابِهِهِ و يُقيمُ فَرائضَهُ و يُحِلُّ حَلالَهُ و يُحَرِّمُ حَرامَهُ فهذا مِمَّن يُنقِذُهُ اللّه ُ مِن مُضِلاّتِ الفِتَنِ و هُو مِن أهلِ الجَنّةِ و يُشَفَّعُ فيمَن شاءَ"[15]،

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: قاری تین (طرح کے) ہیں:
وہ قاری جو قرآن پڑھتا ہے تا کہ اس ذریعے سے بادشاہوں سے فائدہ اٹھا سکے اور لوگوں پر فخر کرے، ایسا آدمی جہنمیوں میں سے ہے۔
اور وہ قاری جو قرآن پڑھتا ہے اور اس کے حروف کا خیال رکھتا ہے اور اس کے معانی کو چھوڑ دیتا ہے، یہ بھی جہنمیوں میں سے ہے۔
اور وہ قاری جو قرآن پڑھتا ہے اور اس کے ذریعے اپنی  ٹوبی کے نیچے چھپ جاتا ہے اور اس کی محکم آیات پر عمل کرتا ہے اور اس کی متشابہ آیات پر ایمان لاتا ہے اور اس کے فرائض کو قائم کرتا ہے اور اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھتا ہے، پس یہ (قاری) ان میں سے ہے جسے اللہ فتنہ کی گمراہیوں سے نجات دیتا ہے اور وہ جنتیوں میں سے ہے اور جس کی چاہے شفاعت کرے گا۔

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) جب قرآن کریم کے آخر تک تلاوت کرلیتے تو ایک دعا پڑھتے جس کا ایک فقرہ یہ ہے:
" اَللّهُمَّ فَاِذا اَفَدْتَنَا الْمَعُونَةَ عَلي تِلاوَتِهِ وَ سَهَّلْتَ جَواسِيَ اَلْسِنَتِنا بِحُسْنِ عِبارَتِهِ، فَاجْعَلْنا مِمِّنْ يَرْعاهُ حَقّ رِعايَتِهِ"[16]، "بارالہا! کیونکہ تو نے ہمیں اس کی تلاوت میں مدد فرمائی، اور تو نے ہماری زبانوں کی دشواری کو قرآن کی عبارت کی خوبصورتی کے ذریعہ آسان کردیا، پس ہمیں ایسا قرار دے کہ قرآن کا ایسا خیال رکھیں جیسے اس کا خیال رکھنے کا حق ہے"۔

اہل بیت (علیہم السلام) کا قرآن سے انس
پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) قرآن سے بہت مانوس تھے، اور قرآن کریم کے ظاہری اور باطنی فیضان سے بہرہ مند ہوتے تھے، آیات قرآن کے صرف ظاہر کی تلاوت کرنے پر اکتفاء نہیں کرتے تھے بلکہ اس کی آیات میں تدبر اور غور بھی کیا کرتے تھے اور آیات کو آرام آرام سے پڑھتے تھے، دلکش آواز میں تلاوت کرتے اور اس کے معانی پر توجہ کرتے ہوئےعمل کرنے کے ارادہ کے ساتھ پڑھتے تھے۔
۱۔ حضرت امام حسین (علیہ السلام) قرآن کریم سے اتنے مانوس تھے کہ کربلا میں تاسوعا (نویں محرم)کے دن عصر کے وقت، جب دشمن آپؑ اور آپؑ کے اصحاب کے خیموں پر حملہ کرنا چاہتا تھا، آپؑ نے حضرت عباس (علیہ السلام) سے فرمایا: دشمنوں کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ آج رات ہمیں مہلت دیں کیونکہ "هُوَ يَعْلَمُ اَنّي اُحِبُّ الصَّلاةَ لَهُ وَ تِلاوَةَ كِتابِهِ"[17]، "خدا جانتا ہے کہ میں اُس کے لئے نماز کو اور اس کی کتاب کی تلاوت کو پسند کرتا ہوں"۔
۲۔ حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) جب سورہ حمد کی قرائت کرتے تو جب آیت " مالِكِ يَومِ الدّين" تک پہنچتے، اس آیت کو خاص خضوع کے ساتھ اتنا دہراتے کہ آپ کی جان لب پر آنے کے قریب ہوتی"[18]۔ اور آنحضرتؐ اتنی دلنواز اور پیاری آواز سے قرآن پڑھتے کہ جب سقّا (پانی پہنچانے والے) آپؑ کے گھر کے قریب سے گزرتے تو وہاں ٹھہر جاتے تا کہ آپؑ کی دلنشین آواز کو سنیں۔[19]
۳۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) آیات قرآن کی نماز میں خاص کیفیت کے ساتھ تلاوت کرتے تھے کہ معمولی کیفیت سے باہر ہوجاتے۔ ایک دن یہی واقعہ ہوا، جب آپؑ معمولی حالت میں واپس پلٹ آئے تو حاضرین نے دریافت کیا: "یہ آپؑ کی کیسی کیفیت تھی؟" آنحضرتؐ نے فرمایا: "ما زِلْتُ اُكَرِّرُ آياتَ الْقُرْآنِ حَتّي بَلَغْتُ اِلي حالٍ كَاَنَّنِي سَمِعْتُها مُشافِهَةً مَمَّنْ اَنْزَلَها"[20]، "میں مسلسل آیاتِ قرآن کو دہراتا رہا یہاں تک کہ ایسی کیفیت میں پہنچا کہ گویا ان آیات کو براہ راست اس ذات سے سنا جس نے ان کو نازل کیا ہے"۔
۴۔ حضرت امام رضا (علیہ السلام) قرآن کریم سے اتنے مانوس تھے کہ ہر تین دنوں میں ایک بار پورے قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور فرماتے تھے: "اگر میں چاہوں کہ تین دن سے کم میں، قرآن کو ختم کروں تو کرسکتا ہوں، لیکن ہرگز میں نے کوئی آیت نہیں پڑھی مگر یہ کہ اس کے معنی میں غور کیا اور اس بارے میں کہ وہ آیت کس سلسلے میں اور کب نازل ہوئی غور کیا، لہذا ہر تین دنوں میں پورے قرآن کی تلاوت کرتا ہوں، ورنہ تین دن سے کم میں پورے قرآن کی تلاوت کرلیتا"۔[21]
۵۔ قرآن کریم میں سینکڑوں بار "يا اَيُّهَا الّذينَ آمَنُوا"، "اے صاحبان ایمان" کا جملہ ذکر ہوا ہے۔ حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے اس آیت پر پہنچتے اور اس کی تلاوت کرتے تو اچانک عرض کرتے: "لَبَّيْكَ اَللّهُمَّ لَبَّيْكَ"[22]، "قبول کرتا ہوں اے بارالہا (تیری دعوت کو) قبول کرتا ہوں"۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) توجہ اور تدبر کے ساتھ، قرآن کی آیات کی تلاوت کیا کرتے تھے اور اسی وقت ارادہ کرلیتے تھے کہ اللہ کے دستورات پر عمل کریں۔
۶۔ مستدرک کے مصنف محدّث نوری نے معتبر سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ آیت اللہ العظمی سید محمد مہدی بحرالعلوم ایک دن حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے روضہ مبارک کی زیارت کے لئے حرم میں داخل ہوئے، اچانک دیکھا گیا کہ وہ اس شعر کو مخصوص حالت کے ساتھ گنگنا رہے ہیں:
به رخت نظاره كردن سخن خدا شنيدن   چه‏ خوش است صوت قرآن زتو دلربا شنيدن
"آپ کے چہرے کا نظارہ کرنا، اللہ کا کلام سننا،  قرآن کی تلاوت کو آپ جیسے دلربا سے سننا کتنا دلچسپ ہے"۔
کچھ دیر کے بعد کچھ لوگوں  نے آپ سے پوچھا: آپ کس وجہ سے یہ شعر حرم میں پڑھ رہے تھے؟ جواب دیا: جب میں حرم میں داخل ہوا تو حضرت حجّت امام زمان (عج) کو امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی ضریح کے پاس دیکھا جو فصیح اور بلند آواز میں قرائت قرآن میں مصروف تھے، جب میں نے آنحضرتؑ کی آواز سنی تو یہ شعر پڑھا، جب حرم میں پہنچا تو آپؑ قرائت قرآن کا اختتام کرتے ہوئے حرم سے باہر چلے گئے"۔[23]
نتیجہ: ماہ رمضان قرآن کریم کا بہار ہے، قرآن سے مانوس ہوتے ہوئے اس مہینہ میں قرآن کریم کے معارف سے بھرپور فیض حاصل کرنا چاہیے۔ قرآن کے صرف ظاہری الفاظ کی قرائت نہ کی جائے، بلکہ قرائت کے علاوہ اس کے معانی اور گہرائیوں میں بھی غور و خوض کرنا چاہیے۔ اہل بیت (علیہم السلام) قرآن سے بہت مانوس تھے اور ان کا قرآن کریم سے انس، تلاوت، تدبر اور غور کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ ان حضرات کی سیرت ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے دستورات کی تعمیل کرنی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1]  الكافي : 2 / 630 / 10 ، ثواب الأعمال : 129 / 1 ، معاني الأخبار : 228 / 1
[2] بحارالانوار، ج96، ص386.
[3] احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغة، ج 1، ص 145.
[4] غرر الحکم، ح 8790.
[5] تفسیر العیاشی، ج 1، ص 33، ح 23.
[6] نهج البلاغه، خطبه 5.
[7] سورہ انفطار، آیت 6۔
[8] نهج البلاغه، خطبه223.
[9] عيون اخبار الرّضا، ج2، ص295.
[10] مفاتيح الجنان.
[11] مفاتيح الجنان.
[12]اصول کافی 2/610
[13]اصول کافی 1/36
[14]ثواب الأعمال : 337/1.
[15]الخصال : 143/165.
[16] صحيفه سجاديه، دعاي 42.
[17] ابن جرير طبري، تاريخ طبري، ج6، ص337؛ محدّث قمي، نفس المهموم، ص113.
[18] اصول كافي، ج2، ص602 و616.
[19] اصول كافي، ج2، ص602 و616.
[20] بحارالانوار، ج84، ص248.
[21] مناقب آل ابي‏طالب، ج4، ص360.
[22] بحارالانوار، ج85، ص34.
[23] محدّث نوري، جنّة المأوي، بحار، ج53 کے آخر میں، ص302.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
5 + 7 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 43