تاریخ گواہ ہے۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ علیھا، دولت و ثروت میں بھی اعلیٰ مقام رکھتی تھیں اور حسن صورت اور حسین سیرت میں بھی آپ کا مقام و درجہ، اعلیٰ و بالا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں بھی آپ کو طاہرہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ جو بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔ چنانچہ مقالہ ھذا میں آپ کی عظمت کے چند پہلو کو بعنوان نمونہ ذکر کیا گیا ہے تاکہ ہم میں بھی وہ ایثار اور جذبہ آئے جو جناب خدیجہ میں موجود تھا۔
رمضان المبارک کی دسویں تاریخ، ایک تلخ اور ناگوار واقعہ کی یاد دلاتاہے ۔آج کے دن دنیا سے ایک جانثار زوجہ اور مہربان ماں، حضرت خدیجہ (س) رخصت ہوئیں۔ آپ نے اسلام کے لئے بہت زیادہ زحمتیں برداشت کیں۔ مسلمانوں پرآپ کا بڑا احسان ہے۔
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ کی پہلی زوجہ اور پہلی مسلمان خاتون ہیں، آپ حسب ونسب اور گھرانے کے لحاظ سے جزیرۃ العرب کی ایک ممتاز خاتون تھیں اور کمال وجمال کے اعتبار سے آپ اپنے زمانے کی خواتین کی سردار تھیں۔
مقالہ ھذا کی تنگی کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے آپ کی عظمت کے چند پہلو کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے تاکہ اسے اپنی زندگی کے لئے مشعل راہ بناسکیں اور زیادہ سے زیادہ حقیقی اسلام کو نشر کرنے اور سمجھنے کی توفیق حاصل کرسکیں۔
خدا کا سلام اوموتیو ں والے گھر کی بشارت
حضرت خدیجہ کبری(سلام اللہ علیھا) نے 25سال تک محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ و سلم کی خدمت کی اور ہر طرح سے آپ کا ساتھ دیا۔ اسلام کی تبلیغ میں بھی آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کی خدمات کی بدولت، خدا نے انہیں اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی۔ چنانچہ ابوہریرہ سے روایت ہے:
أَتَى جَبْرَئِيلُ النَّبِيَّ (ص) فَقَالَ هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْكَ مَعَهَا إِنَاءٌ مُغَطًّى فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا وَ مِنِّي السَّلَامَ وَ بَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَ لَا نَصَبَ․[1]
”جبریل علیہ السلام، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! یہ خدیجہ آرہی ہیں، ان کے پاس ایک برتن ہے، جس میں سالن ‘کھانا یا پانی ہے۔جب وہ آپ (صلی الله علیہ وسلم) کے پاس آئیں تو ان کو ان کے بلند مرتبہ پروردگار اور میری طرف سے سلام کہیے اور ان کو جنت میں موتیوں والے گھر کی بشارت دیجیے، جہاں نہ کوئی شور شرابہ ہوگا اور نہ تھکن ہوگی۔
اس روایت میں حضرت خدیجہ کے دوخصوصی فضائل کا ذکر ہے: خداوند کریم اور جبریل علیہ السلام کا ان کو سلام کرنا۔ ان کوجنت میں موتیوں والے گھر کی بشارت ملنا۔
اُمت محمدیہ کی سب سے افضل خاتون
نبی کریم (صلی الله علیہ وآلہ و سلم ) نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت مریم (علیہا السلام ) کو (سابقہ امتوں کی) اورحضرت خدیجہ کو ( اس امت کی ) سب سے افضل خاتون قرار دیا ہے۔ حضرت علی (علیہ السلام) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی الله علیہ وآلہ سلم کو فرماتے ہوئے سنا :خَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ وَ خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ۔[2](سابقہ) امت کی عورتوں میں سب سے افضل مریم بنت عمران ہیں اور (اس) امت کی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ ہیں۔
نبی کریم کی آپ سے بے پناہ محبت
نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیھا)سے اور حضرت خدیجہ کو بھی آپ (صلی الله علیہ و آلہ وسلم )سے بے پناہ محبت تھی۔ آپ (صلی الله علیہ و آلہ وسلم )نے ان کی زندگی میں دوسری شادی کے بارے میں سوچا تک نہیں اور پورے پچیس(۲۵) سال آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزاری۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اورحضرت خدیجہ کی محبت کا اندازہ ذیل میں بیان کردہ حدیث سے آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:
ما غرت على أحد من نساء النبي (ص) ما غرت على خديجة و ما رأيتها قط و لكن كان يكثر ذكرها و ربما ذبح الشاة ثم يقطعها أعضاء ثم يبعثها في صدائق خديجة فربما قلت له كأنه لم تكن في الدنيا امرأة إلا خديجة فيقول (ص) إنها كانت و كانت لي منها ولد[3] ․
مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کسی پر اتنا رشک نہیں آیا جتنا کہ خدیجہ پر آیا، حالانکہ میں نے ان کو دیکھا تک نہیں لیکن نبی اکرم (صلی الله علیہ وآلہ وسلم) ان کو کثرت سے یاد کرتے تھے اور کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ جب بکری ذبح فرماتے اور‘پھر اس کے حصے الگ الگ کرتے تو انہیں خدیجہ کی سہیلیوں کے ہاں بھیجتے۔(حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ) کبھی کبھی میں آپ سے کہہ دیتی کہ کیا اس دنیا میں صرف خدیجہ ہی ایک عورت ہے۔ آپ فرماتے : وہ ایسی تھیں‘ایسی تھیں (یعنی ان کی خدمات اور اوصاف کا ذکر کرتے) اور (یہ بھی فرماتے کہ) ان سے میری اولاد ہوئی۔
اُمت مسلمہ کی ”صدیقةالکبریٰ“ ہو نے کا شرف
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب غارِ حرا سے واپس آئے اور سارا ماجرا حضرت خدیجہ کو سنایا اور ورقہ بن نوفل نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے نبی ہونے کو بیان کیا تو آپ نے، حضور صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لائیں اور سب سے پہلے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرنے والی بھی حضرت خدیجہ کبری ہیں۔
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) جب بھی حضرت خدیجہ(سلام اللہ علیھا) کا تذکرہ کرتے تو ان کی خوب تعریف کرتے تھے۔ ایک دن مجھے غیرت آئی اور میں نے کہا کہ آپ کیوں اتنی کثرت کے ساتھ ایک سرخ مسوڑوں والی(بوڑھی) عورت کا ذکر کرتے رہتے ہیں ‘حالاںکہ ان کے بدلے میں اللہ نے آپ کو اس سے بہتر بیویاں عطا کردی ہیں؟ نبی مکرم (صلی الله علیہ و آلہ سلم) نے فرمایا:
خَدِيجَةُ وَ أَيْنَ مِثْلُ خَدِيجَةَ صَدَّقَتْنِي حِينَ كَذَّبَنِي النَّاسُ وَ وَازَرَتْنِي عَلَى دِينِ اللَّهِ وَ أَعَانَتْنِي عَلَيْهِ بِمَالِهَا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَمَرَنِي أَنْ أُبَشِّرَ خَدِيجَةَ بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبِ الزُّمُرُّدِ لَا صَخَبَ فِيهِ وَ لَا نَصَب [4]۔
"خدیجہ، اور کہاں ہے کوئی خدیجہ کی طرح!، وہ مجھ پر اُس وقت ایمان لائیں جب لوگ میرا ا نکار کررہے تھے اور میری اُس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور اپنے مال سے میری ہم دردی اُس وقت کی جب کہ لوگوں نے مجھے اس سے دور رکھا، بے شک اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ خدیجہ کوجنت میں موتیوں والے گھر کی بشارت دوں، جہاں نہ کوئی شور شرابہ ہوگا اور نہ تھکن ہوگی۔
حضرت خدیجہ کی اِسی تصدیق کی وجہ سے انہیں امت کی ”صدیقہ کبریٰ“ہونے کا شرف حاصل ہے۔ مردوں میں” صدیق اکبر“ کا اعزاز حضرت علی (علیہ السلام ) کو اور عورتوں میں ”صدیقہ کبری “ ہونے کا اعزاز حضرت خدیجہ کو حاصل ہوا۔
مطالب مذکور سے پتہ چلتا ہے کہ جناب خدیجہ (سلام اللہ علیھا)کی عظمت اسلام میں بہت زیادہ بیان کی گئی ہے چنانچہ ہم کو چاہئے کہ ان کی عظمت کا ادراک حاصل کریں اور اپنی زندگی میں انھیں نمونہ عمل قرار دیتے ہوئے وہ جذبہ اور ایثار و قربانی جو جناب خدیجہ (سلام اللہ علیھا) میں پایا جاتا تھا، ہم خود میں اسے ایجاد کریں اور رسول اسلام کی ان تعریف کے حقدار بنیں جس کی وجہ سے جناب خدیجہ بنیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] بحار الانوار، ج۱۶، ص۸، محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى، انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان، 1404 قمرى۔
[2] بحار الانوار، ج۱۶، ص۷، محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى، انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان، 1404 قمرى۔
[3] الطرائف، ج۱، ص۲۹۱، سيد رضى الدين، على بن موسى بن جعفر بن طاووس، انتشارات خيام، قم 1400 هجرى
[4] بحار الانوار، ج۴۳، ص۱۳۰، محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى، انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان، 1404 قمرى۔
Add new comment