خلاصہ: قبرستان بقیع اہل بیت علیہم السلام میں سے چار ائمہ اطہار علیہم السلام اور نیز رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے قرابتدار اور اصحاب کے دفن ہونے کی وجہ سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس قبرستان میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی قبروں کا کئی سدیوں تک قبوں سے مزین رہنے کے بعد وہابیوں نے ان مقدس مزازات کو مسمار کردیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بقیع، "ب ق ع" سے ماخوذ، اس زمین کو کہا جاتا ہے جو اطراف کی زمینوں سے مختلف ہو اور نیز وہ زمین جس میں درخت یا ان کی جڑیں پراگندہ طور پر پائی جاتی ہوں۔[1] "ب ق ع" کے اصلی معنی، رنگ یا ہر طرح کی ظاہری کیفیت میں فرق کے ہیں۔[2] اسلامی مآخذ میں مدینہ کے مشہور قبرستان کو بقیع کہا گیا ہے، اس میں غَرقَد خاردار درختوں کے اگنے کی وجہ سے یہ بقیع الغرقد نیز کہلاتا ہے۔[3]
قبرستان بقیع مسجد النبیؐ کی مشرقی جہت میں اور تقریباً ۱۰۰ میٹر کے فاصلہ پر اور شہر مدینہ کے درمیان میں قرار پایا ہے، قبرستان بقیع مستطیل شکل میں ہے اور اس کی ۱۵۰ میٹر لمبائی اور ۱۰۰ میٹر چوڑائی ہے۔[4]
بقیع صرف ایک قبرستان نہیں ہے، بلکہ تاریخ اسلام کا خزانہ ہے۔ شیعہ کے چار ائمہ معصومین (علیہم السلام) یعنی حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام)، حضرت امام سجاد (علیہ السلام)، حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) اور حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)، نیز فاطمہ بنت اسد حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ اور پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے چچا عباس بن عبدالمطلب، عقیل بن ابی طالب اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ازواج، آپؐ کی بعض اولاد، اصحاب، تابعین اور قرابتداروں کی قبریں یہیں پر ہیں، اس جگہ پر دس ہزار کے قریب تاریخ اسلام کے نامور افراد دفن ہیں۔ اس قبرستان کا تاریخی حوالے سے تعلق اسلام سے قبل دور سے ہے، لیکن تاریخی دستاویز میں مکمل طور پر واضح نہیں ہے کہ اس کا کس زمانه سے تعلق ہے اور کب سے مدینہ کے لوگ اس قبرستان میں جنازے دفن کرتے تھے۔
تاریخی مآخذ سے ملتا ہے کہ ہجرت سے پہلے مدینہ کے لوگ اپنے مردوں کے جنازے دو قبرستان "بنی حرام" اور "بنی سالم" میں دفن کرتے تھے اور بعض اوقات اپنے گھروں میں دفن کردیتے تھے۔[5] مگر مسلمانوں کی مدینہ میں ہجرت کرنے سے، بقیع صرف مسلمانوں کا قبرستان بن گیا اور رفتہ رفتہ اور بہت سارے اصحاب، تابعین، ازواج النبیؐ، اولاد پیغمبرؐ، اہل بیت (علیہم السلام) کے جنازوں کے دفن ہونے کی وجہ سے یہ قبرستان خاص اہمیت کا حامل ہوگیا۔[6] اور سابقہ قبرستان آہستہ آہستہ نظرانداز ہوتے ہوئے لاپتہ ہوگئے۔
قبرستان بقیع میں انصار میں سے پہلا شخص جو دفن ہوا "اسعد بن زرارہ خزرجی" اور مہاجرین میں سے "عثمان بن مظعون" ہیں۔ جب ابراہیم پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے فرزند کا انتقال ہوا تو آنحضرتؐ کے حکم سے ابراہیم کو قبرستان بقیع میں دفن کیا گیا، ابراہیم کے بقیع میں دفن ہونے کے بعد مدینہ کے لوگوں میں یہ رغبت پیدا ہوئی کہ اپنے خاندان اور قرابتداروں کو وہاں پر دفن کریں اور مدینہ کے ہر قبیلہ نے بقیع کے کچھ حصہ کے درختوں اور جڑوں کو کاٹ دیا اور وہاں کی زمین کو اسی مقصد کے لئے تیار کردیا۔
روایت میں منقول ہے کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اللہ تعالی کے حکم سے اس قبرستان کے پاس تشریف لاتے اور وہاں کے دفن شدہ افراد پر سلام کرتے اور ان کے لئے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتے تھے۔[7]
گزشتہ ایک سدی تک بقیع کی کوئی دیوار اور حصار نہیں تھی، لیکن اب اسے ایک اونچی دیوار کے ساتھ محصور گیا گیا ہے اور قدیم زمانے سے اب تک ہر فرقہ اور مذہب کے مسلمان، پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی زیارت کے بعد یہاں پر آتے ہیں اور اہل بیت (علیہم السلام) اور دیگر دفن شدہ افراد کی زیارت کرتے ہیں۔ ائمہ معصومین (علیہم السلام) اور بعض دیگر دفن شدہ افراد کی بقیع میں قبروں پر قبہ اور سائبان تھا جو وہابیوں کے حملہ سے گرا دیا گیا اور اب یہ قبرستان کھلی اور سادہ شکل پاگیا ہے اور صرف بعض قبروں پر چھوٹی سی دیواریں ہیں۔
بقیع میں ائمہ اطہار (علیہم السلام) کے مدفن کے لئے حرم کی کئی مراحل میں تعمیر کی گئی ہے۔ بنی امیہ کے دور کے بعد جب شیعہ سخت ترین حالات میں زندگی بسر کررہے تھے اور حتی اپنے عقیدہ کے اظہار کی جرات نہیں کرتے تھے، عباسی اقتدار پر آئے اور اسی زمانے میں شیعوں کو کچھ آزادی ملی یہاں تک کہ سفاح نے حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی حقانیت کا اعتراف کرلیا اور بنی الحسن (علیہ السلام) کو فدک لوٹانے کے لئے اقدام کیا۔ ایسے حالات میں اور تمام رکاوٹوں کے ہٹ جانے سے خاندان عصمت کے شیعوں اور بالخصوص سادات بنی الحسن (علیہ السلام) نے بقیع کے ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کے مدفن کی تعمیر اور توسیع اور جناب عقیل کے گھر کو حرم میں بدلنے کے لئے دینی فریضہ اور مذہبی نشانی کے طور پر سرگرم عمل ہوگئے۔
تاریخی دستاویز کے مطابق حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا جنازہ مطہر ۱۴۸ ہجری قمری میں سفاح اور منصور کے دور خلافت کے بعد ۱۳۶ سے ۱۵۷ ہجری قمری تک، حرم کے اندر اور جناب عقیل کے گھر کو مسجد اور زیارتگاہ میں بدلنے کے بعد، تین ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی قبروں کے پاس دفن کیا گیا۔
مگر اس حرم مطہر میں اس تاریخ کے بعد سے لے کر پانچویں سدی تک جو تبدیلیاں پیش آئیں، اس کے بارے میں مکمل معلومات اور تاریخی دستاویز نہیں ملتیں، لیکن مذکورہ بالا مطالب سے واضح ہوتا ہے کہ اس حرم پر ان تین سدیوں میں عباسیوں اور شیعوں کی توجہ مرکوز رہی ہے اور وہ ہر ممکنہ فرصت میں اس کی عمارت کی تعمیر کے لئے کوشاں رہے ہیں۔
حرم کی عمارت کی تعمیر کا دوسرا مرحلہ پانچویں سدی سے آغاز ہوا جس کے بارے میں بہت ساری دستاویزات پائی جاتی ہیں۔ تاریخ کے یقینی دستاویز کے مطابق، ائمہ بقیع کے حرم اور گنبد کو مضبوطی اور بلندی، ظرافت اور خوبصورتی کے لحاظ سے بقیع میں موجود تمام قبّوں پر فوقیت حاصل ہے اور یہ آٹھ سو سال تک سر آسمان کی طرف بلند کئے رہے اور مورخین اور سیاحوں کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے رہے۔
نتیجہ: بقیع قدیم اور تاریخی قبرستان ہے، اس میں اسلام کے نامور افراد کی قبریں ہیں جن میں سے چار ائمہ معصومین (علیہم السلام) کے مبارک مقبرے ہیں، ان حضرات کی قبروں پر قبے اور حرم کی تعمیر تاریخ کے مختلف ادوار میں کی گئی، یہاں تک کہ وہابیوں نے ان روضوں کو مسمار اور منہدم کردیا، اس کی تفصیل اگلے مقالہ میں بیان کی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] فراهیدی، ج1، ص184؛ صاحب بن عباد، ج1، ص195، «بقع»۔
[2] مصطفوی، التحقیق لکلمات القرآن الکریم، ج1، ص339۔
[3] فراهیدی، ج1، ص184؛ ابن اثیر، ج1، ص146، «بقع»۔
[4] مرآة الحرمین، ج1، ص425؛ آثار المدینة المنوره، ص171 - 172؛ بقیع الغرقد، ص34۔
[5] تاریخ حرم ائکمہ بقیع، ص61 سے منقول۔
[6] مدینہ شناسی، ج1، ص321۔ سے منقول۔
[7] اصول کافی، ج4، ص559۔
Add new comment