خلاصۃ: اسلام کی مشہور اور شجاع شخصیات میں سے ایک حضرت حمزہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے چچا ہیں، آپ نے پیغمبر اکرم (ص) کی بھرپور حمایت اور حفاظت کی، نیز آپ نے آنحضرت کی دعوت اسلام میں خاص کردار ادا کیا کہ آپ کے اظہار اسلام کا رشتہ داروں کے اسلام کی طرف مائل ہونے پر اثر پڑا، آپ نے اسلام کے لئے ایسی جان نثاری کی کہ جنگ احد میں جام شہادت نوش کرلیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب حمزہ بن عبدالمطلب جن کے القاب، اسد اللہ، اسد رسول اللہ اور سیدالشہدا ہیں، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے چچا ہیں اور جنگ اُحد کے شہدا میں سے ہیں، حضرت حمزہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دعوت رسالت کے حامیوں میں سے تھے، آپ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اسقدر حامی، مددگار اور پشت پناہ تھے کہ ابھی تک آپ نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کیا تھا تب بھی آپ، مشرکوں کے مقابلہ میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حمایت کیا کرتے تھے اور چونکہ آپ قریش کے بزرگوں میں سے تھے تو آپ کے اظہار اسلام سے قریش نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اذیت و تکلیف دینے میں کمی کردی، نیز بعض تاریخی دستاویز کے مطابق، ابولہب اور دیگر مشرکین جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی توہین کرتے تھے، آپ ان کی توہین کا جواب دیا کرتے تھے۔[1]
نمونہ کے طور پر ایک دن ابوجہل کا کوہ صفا کے قریب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سامنا ہوا تو اس نے آنحضرت سے نازیبا باتیں کیں۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔ ایک کنیز وہاں پر موجود تھی اس نے یہ واقعہ دیکھ لیا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد جناب حمزہ شکار سے مکہ واپس پلٹ آئے، جناب حمزہ کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب شکار سے واپس آتے تو کعبہ کا طواف کرتے، پھر قریش کی انجمنوں میں جاتے اور ان سے بات چیت کرتے۔ قریش جناب حمزہ سے ان کی بہادری کی وجہ سے محبت کرتے تھے۔ اس مرتبہ جب جناب حمزہ اپنے طریقہ کار کے مطابق، اپنے جاننے والوں سے ملاقات میں مصروف تھے تو وہ کنیز آپ کے پاس آئی اور کہا: آپ موجود نہیں تھے کہ دیکھتے کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے سے کیا کچھ کہا۔ جناب حمزہ ابوجہل کے پاس گئے، اسے دیکھا کہ وہ مسجدالحرام میں لوگوں کے درمیان بیٹھا ہے۔ آپ نے اپنی کمان اس کے سر پر ماری یہاں تک کہ ابوجہل کے سر میں بڑا سا زخم ہوگیا۔ پھر آپ نے کہا: "کیا تم محمد کو گالی دیتے ہو، کیا نہیں جانتے کہ میں نے ان کا دین اختیار کرلیا ہے، جو کچھ وہ کہیں میں بھی وہی کہوں گا"۔ بنی مخزوم ابوجہل کی مدد کرنے لگے، لیکن اس نے کہا: حمزہ کو چھوڑو، کیونکہ میں نے اس کے بھتیجے کو نازیبا گالیاں دی ہیں، یہ واقعہ باعث بنا کہ جناب حمزہ مسلمانوں میں سے ہوجائیں، اس کے بعد، کیونکہ قریش نے دیکھا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا حمزہ جیسا طاقتور حامی ہے جو آنحضرت کو ان لوگوں کے خطرے سے محفوظ رکھے گا تو وہ کم ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو تکلیف دیا کرتے تھے۔[2]
حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) سے منقول روایت کے مطابق، جناب حمزہ کے اسلام لانے کی وجہ، اس مسئلہ میں غیرت تھی جو مشرکین نے اونٹنی کی بچہ دانی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے سر پر پھینکی۔[3] تاہم بعض محققین کا نظریہ ہے کہ جناب حمزہ کا اسلام، ابتدا ہی سے علم و معرفت پر قائم تھا۔[4]
جناب حمزہ کا اظہار اسلام آپ کے قرابتداروں کا اسلام کی طرف مائل ہونے پر اثر انداز ہوا۔[5]
جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی دعوت، اعلانیہ طور پر کردی تو جناب حمزہ بھی اعلانیہ طور پر دعوت کرنے لگے۔[6]
آپ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ رہے اور حبشہ ہجرت نہ کی۔[7] دو یا تین سال جو مشرکوں نے بنی ہاشم اور بنی مطلب پر شعب ابی طالب میں پابندی لگائی ہوئی تھی، جناب حمزہ مسلمانوں کے ساتھ تھے۔[8]
دوسری بیعت عقبہ میں بعثت کے بارہویں سال جب مدینہ کے کچھ لوگوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عہد کیا تو جناب حمزہ، حضرت علی (علیہ السلام) کے ساتھ موجود اور محافظ تھے کہ اس جگہ مشرکین قریب نہ ہونے پائیں۔[9]
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے جنگ کا پہلا علم، ماہ رمضان میں ہجرت کے پہلے سال میں، جناب حمزہ پر باندھا تاکہ آپ، قریش کے شام سے مکہ واپس آنے والے تجارتی قافلہ پر حملہ کے سریہ کی قیادت کریں۔ جناب حمزہ ۳۰ مہاجرین کے ساتھ عیص علاقہ تک سمندر کی ساحل میں بڑھے اور وہاں پر ابوجہل کی زیرنگرانی مشرکین مکہ کے ۳۰۰ سوار افراد کے لشکر سے سامنا ہوا۔ مَجدی بن عَمرو جُهَنی کی ثالثی سے جس کا دونوں گروہوں سے صلح کا وعدہ تھا، کوئی جنگ پیش نہ آئی اور دونوں لشکر واپس پلٹ گئے۔[10] جناب حمزہ اَبواء یا وَدّان، ذوالعُشَیره اور بنی قَینُقاع کے غزوات میں علمدار تھے۔[11]
غزوہ بدر میں جناب حمزہ لشکر اسلام میں مشرکین سے قریب ترین جگہ پر تھے۔[12] اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے آپ کو، حضرت علی (علیہ السلام) کو اور عُبَیدة بن حارث بن عبدالمطلب کو مشرکین کے چند سربراہوں سے جنگ کے لئے بھیجا۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق، عُتْبة بن ربیعه یا شَیبه، براہ راست جناب حمزہ کے ہاتھوں جنگ میں قتل ہوگئے۔[13]
ہجرت کے تیسرے سال غزوہ احد کے سلسلے میں جناب حمزہ ان افراد میں سے تھے جن کا ارادہ یہ تھا کہ جنگ مدینہ سے باہر کی جائے، یہاں تک کہ آپ نے قسم کھائی کہ کچھ نہیں کھائیں گے یہاں تک کہ شہر سے باہر دشمن سے جنگ کریں، قلب لشکر کی ذمہ داری آپ پر تھی، آپ دو تلواروں سے جنگ کرتے اور اس جنگ میں آپ نے شجاعت دکھائی۔[14]
جنگ احد میں حضرت حمزہ، وحشی بن حرب حبشی غلام کے ذریعہ شہید ہوئے، اس غلام کو ابوسفیان کی بیوی ہند نے مال کا وعدہ دیتے ہوئے اس کام کے لئے ابھارا تھا۔ آپ کی شہادت کے بعد ہند آپ کی لاش پر آئی اور آپ کے بدن کو مثلہ (ٹکڑے ٹکڑے) کردیا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے آپ کی یہ صورتحال دیکھی تو گریہ کیا اور جب سنا کہ انصار اپنے مقتولین پر گریہ کررہے ہیں تو فرمایا: "لیکن حمزہ پر گریہ کرنے والا نہیں ہے" سعد بن معاذ نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی یہ بات سنی اور خواتین کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے گھر کے دروازے پر لایا اور خواتین نے جناب حمزہ پر گریہ کیا۔ اس کے بعد جب بھی انصار کی کوئی عورت کسی مقتول پر گریہ کرنا چاہتی تو پہلے جناب حمزہ پر گریہ کرتی۔[15] کہا گیا ہے کہ زینب ابوسلمہ کی بیٹی نے جناب حمزہ کے لئے تین دن عزا کا لباس پہنا۔[16] جناب حمزہ جنگ اُحُد کے پہلے شہید تھے جن پر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے نماز پڑھی اور پھر دیگر شہدا کو کئی گروہوں میں لایا گیا اور ان کو آپ کے جنازے کے پاس رکھا گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان پر اور آپ پر نماز پڑھی، اس طرح سے الگ اور نیز دیگر شہدا کے ساتھ آپ کے جنازے پر تقریباً ستر بار نماز پڑھی۔[17]
جناب حمزہ کی مقبولیت اور آپ کی شخصیت کا ہردل عزیز ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ آپ کی شہادت کے بعد، بعض اصحاب نے اپنے بیٹوں کا نام "حمزہ" رکھا۔[18]
اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ آپ اور جناب جعفر بن ابی طالب کی شہادت سے بنی ہاشم کا قریش کے مقابلے میں اقتدار کم ہوگیا اور ان دو حضرات کی شہادت، رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کا خلیفہ نہ بن پانے کی وجہ بتائی گئی ہے۔[19]
نتیجہ: حضرت حمزہ، اسلام کی ان شخصیات میں سے ہیں جو شجاع، نامور اور ہر دل عزیز ہیں، آپ نے اظہار اسلام کے بعد اور قبل بھی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت اور حفاظت کی، آپ جنگ احد میں ہند جگرخوار کے ناپاک عزائم کے تحت حبشی غلام کے ذریعے شہید ہوئے، آپ کے جام شہادت نوش کرنے کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے گریہ کیا، نیز آپ کی موجودگی اس قدر اسلام کے لئے اہمیت کی حامل تھی کہ اگر آپ اور جناب جعفر بن ابی طالب موجود ہوتے تو حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے خلافت غصب نہ کی جاتی، نہ بنت رسول (ص) کا پہلو شکستہ کیا جاتا، نہ محسن بن علی کو سقط کیا جاتا، نہ امامت کی کڑیوں کو یکے بعد دیگرے شہید کیا جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] الکافی، ج1، ص449.
[2] تاریخ تحلیلی اسلام، شهیدی، ص49؛ کتاب السیر و المغازی، ابن اسحاق، ص171-172؛ السیرة النبویة، ابن هشام، قسم1، ص291ـ292.
[3] الکافی، ج1، ص449، ج2، ص308.
[4] الصحیح من سیرة النبی، عاملی، ج3، ص153ـ154.
[5] الطبقات ابن سعد، ، ج3، ص123.
[6] انساب الاشراف، ج1، ص123.
[7] السیرة النبویة ابن هشام.
[8] ابن اسحاق، ص160ـ161.
[9] تفسیر القمی، ذیل انفال: 30.
[10] المغازی، ج1، ص9؛ السیرة النبویة ابن هشام، قسم 1، ص595ـ596؛ طبقات ابن سعد، ج2، ص6.
[11] طبقات ابن سعد ، ج2، ص8ـ9 و ج3، ص10.
[12] طبقات ابن سعد ، ج3، ص12.
[13] المغازی، ج1، ص68ـ69.
[14] طبقات ابن سعد ، ج3، ص12.
[15] المغازی، ج1، ص315ـ317.
[16] النهایة، ابن اثیر، ج5، ص68۔
[17] طبقات ابن سعد ، ج3، ص11.
[18] الکافی، ج6، ص19.
[19] الکافی، ج8، ص189ـ190؛ شرح نهج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج11، ص111، 115 ـ 116۔
Add new comment