خلاصہ: حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے علمی لحاظ سے ایسی تحریک کا آغاز کیا جس کی مثل تاریخ میں نہیں ملتی، آپ نے مختلف علوم و فنون میں شاگردوں کو تعلیم دی، علوم و معارف کی اشاعت کی اور دین خدا کو بچانے کے لئے اتنی جد و جہد کی کہ دوست و دشمن آپ کے شاگرد بن گئے جن کی تعداد تقریباً چار ہزار بتائی گئی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے واضح الفاظ میں وصیت کی اور امامت پر منصوب کیا، ہشام ابن سالم نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا کہ جب میرے والد کی وفات کا وقت ہوا، آپ نے فرمایا: میرے بیٹے جعفر میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ میرے اصحاب سے اچھا برتاو کرنا۔
عرض کیا: میں ان کی ترقی، تعلیم و تربیت کے لئے اتنی کوشش کروں گا کہ ہر ایک معاشرہ کے سب سے زیادہ ممتاز افراد میں سے ہوجائیں اور انہیں دوسروں کے علم کی ضرورت نہ ہو۔[1]
امویوں اور عباسیوں کے درمیان سیاسی اختلافات، اسلام کا مختلف فرقوں میں بٹ جانا، مادہ محور عقائد کا پیدا ہونا اور فلسفہ یونان کا اسلامی ممالک میں اثر و رسوخ، علمی تحریک کی ایجاد کا باعث بنا۔ ایسی تحریک جس کے ستون، یقینی حقائق پر قائم تھے، ایسی تحریک کی ضرورت تھی جو دینی حقائق کو وہم، منگھڑت باتوں اور جعلی احادیث سے الگ بھی کرے اور نیز زندیقوں اور مادہ پرستوں کے مقابلہ میں عقل و دلیل کی طاقت کے ذریعے استحکام دیکھائے اور ان کے کمزور نظریات کی رد پیش کرے۔ امام صادق (علیہ السلام) کی ابن ابی العوجاء، ابوشاکر دیصانی اور ابن مقفع جیسے دہری و مادی افراد سے علمی گفتگوئیں اور مناظرے مشہور ہیں۔
ایسی علمی تحریک کا آغاز اُس زمانے کے ہنگامہ خیز اور تاریک ماحول میں ہر آدمی کا کام نہیں تھا، صرف وہی اس کام کے لائق تھا جس پر الہی ذمہ داری ہو اور اللہ تعالی کی طرف سے اس کی پشت پناہی ہو، حقائق کو لامحدود علم الہی سے حاصل کرے اور حقیقت کی جستجو کرنے والے گوہر شناس افراد کی رسائی میں قرار دے۔ صرف حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ایسے مقام کے حامل ہوسکتے تھے۔ فقط امام صادق (علیہ السلام) تھے جنہوں نے سیاست اور سیاسی تنازعات سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے معارف اسلام کی اشاعت، دین مبین اسلام کے احکام کی تبلیغ اور مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے محنت کی۔ البتہ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ آپ نے سیاسی امور سے بالکل دوری اختیار کی بلکہ آپ اپنی حقانیت اور حکومت وقت کے باطل ہونے کی ترویج کے لئے ہمیشہ مناسب اوقات سے فائدہ اٹھاتے رہے اور اسی لیے بعض نمائندگان کو مختلف اسلامی علاقوں میں بھیجتے تھے۔ تاہم امام صادق (علیہ السلام) کا زمانہ درحقیقت علم، احکام کی تبلیغ اور ان شاگردوں کی پرورش کا سنہرا دور تھا جن میں سے ہر ایک علم کے نورانی چراغ کو مختلف جگہوں پر لے کر گیا اور "خودشناسی" اور "خداشناسی" کے لئے اپنے بزرگ استاد اور بزرگوار امام (علیہ السلام) کی طرح لوگوں کی ہدایت کے لئے کوشش کی۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی مدینہ میں علمی تحریک اور ترقی کے ساتھ ساتھ منصور خلیفہ عباسی کینہ اور حسد کی وجہ سے ایک نئے مکتب کی ایجاد کی سوچ بچار میں پڑگیا جو مکتب جعفری کے مقابلے میں علمی طور پر مستقل ہو اور نیز لوگوں کو بھی مصروف کردے اور امام (علیہ السلام) کی بارگاہ سے بہرہ مند ہونے سے روک لے، اسی لیے منصور نے بغداد کے محلہ "کرخ" میں ایک مدرسہ بنایا۔
اس نے اس مدرسہ میں ابوحنیفہ کو فقہی مسائل کے لئے رکھا اور علمی و فلسفی کتب کے بارے میں حکم دیا کہ ہندوستان اور یونان سے لاکر ترجمہ کیا جائے اور مالک کو جو فرقہ مالکیہ کا سربراہ ہے، فقہ کی مسند پر بیٹھا دیا، لیکن یہ مکاتب اپنی ذمہ داری کو ادا نہ کرسکے۔ جبکہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے بکھرے ہوئے فقہی، علمی اور کلامی مسائل کو مرتب کیا اور علوم و فنون کے ہر شعبہ میں بہت سارے شاگردوں کو تعلیم دی جنہوں نے دنیا میں اسلامی معارف کو پھیلایا۔ امام (علیہ السلام) کی علمی اشاعت علم فقہ، فلسفہ و کلام اور سائنس وغیرہ کے شعبوں میں شروع ہوئی۔ فقہ جعفری وہی فقہ محمدی یا دینی احکام ہیں جو اللہ تعالی کی جانب سے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف قرآن و وحی کے ذریعے نازل ہوئے ہیں، جبکہ دیگر فرقوں میں ایسا نہیں ہے بلکہ وہ ذاتی عقیدہ اور رائے سے باتوں کو کم یا زیادہ کرتے تھے، مگر فقہ جعفری انہی اصول و فروع کی وضاحت اور تشریح تھی جو مکتب اسلام میں آغاز سے بیان ہوئے تھے۔
استاد کی پہچان کے لئے عموماً دو طریقے ہیں: پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس کی باتوں اور تحریروں کو پرکھا جائے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس سے تعلیم یافتہ شاگردوں کے علمی مقام کو دیکھا جائے۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے کثرت سے احادیث نقل ہوئی ہیں اور شاگردوں کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو آپ کے تقریباً چار ہزار شاگرد تھے۔[2] ان میں سے ایک مفضل بن عمر ہیں جنہوں نے امام سے اللہ تعالی کی مخلوقات کے سلسلے میں چند دنوں میں تعلیم حاصل کی اور آنحضرت کے ارشادات کو ایک کتاب میں تحریر کیا جس کا نام "توحید مفضل" ہے۔ آنحضرت کے ہندی طبیب سے مناظرے ہوئے جو کتاب "اہلیلجہ" میں درج ہیں اور نیز اس میں کچھ حکمت آموز زریںکلمات بھی آپ کے علم بے کراں میں سے نقل ہوئے ہیں۔
آپ کے شاگردوں میں سے ایک جابر بن حیان ہیں۔ جابر نے پہلے حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) کے سامنے اور اس کے بعد امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، جابر زمانے کی عجیب شخصیات اور اسلامی دنیا کے عظیم دانشوروں میں سے ہیں، ان کی تمام علوم و فنون خصوصاً علم کیمیا میں بہت ساری تصنیفات ہیں اور اپنے رسالوں میں مختلف جگہوں پر نقل کرتے ہیں کہ "جعفر بن محمد نے مجھے یوں کہا یا تعلیم دی یا حدیث فرمائی"۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے بعض دیگر شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں:
هشام بن حکم، مفضل بن عمر، محمد بن مسلم ثقفی، ابان بن تغلب، هشام بن سالم، مؤمن طاق، جابر بن حیان، نیز چار مذاہب اہل سنت میں سے ایک مذہب کے سربراہ ابوحنیفہ نے کچھ عرصہ آپ کی شاگردی اختیار کی اور وہ اس بات پر فخر کرتے تھے۔
اہل سنت کے علامہ ابن حجر ہیتمی کا کہنا ہے کہ لوگ آپ (امام صادق علیہ السلام) کے علم سے اتنا نقل کیا ہے کہ اس کی شہرت سب شہروں تک پہنچ گئی۔ یحیی بن سعید، ابن جریح، مالک، سفیان بن عیینه، سفیان ثوری، ابوحنیفه، شعبة بن الحجاج و ایوب سختیانی جیسے بزرگ اماموں نے آپ سے روایت نقل کی ہے۔[3]
نتیجہ: امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے زمانے کے تقاضے اور ضرورت کے مطابق علمی تحریک کا آغاز کیا، آپ نے دین الہی کو محفوظ رکھنے اور حق کو سربلند کرنے کے لئے اتنی علمی اور ثقافتی جد و جہد کی کہ دوست و دشمن نے آکر آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے اور آپ کی شاگردی پر فخر کیا، آپ کی علمی تحریک کے مقابلہ میں منصور نے مدرسہ بنا کر کوشش کی کہ لوگوں کو آپ سے دور کرے، لیکن اس نے اس کوشش میں ناکامی کا سامنا کیا۔ دنیا بھر سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے آپ کے پاس اتنے لوگ آتے جن کی کل تعداد تقریباً چار ہزار افراد بتائی گئی ہے، آپ نے اپنے شاگردوں کو مختلف علوم و فنون سے بہرہور کرتے ہوئے دین اسلام کو فروغ دیا اور سنت نبوی کو مستحکم کردیا اور دنیا بھر میں اپنے اجداد طاہرین کی سیرت کے چراغ روشن کردیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] زندگانى امام جعفر صادق(ع)، ترجمه بحار الأنوار ،ص:9۔
[2] كشف الغمه، ج 2، ص 166۔
[3] احمد بن حجر هیتمی، ص201.
Add new comment