خلاصہ: صہیونیت نے اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے وہابیت کے مذہب کو ایجاد کیا جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کررہا ہے، جن میں سے ان کے بعض کام یہ ہیں کہ قبرستان بقیع کا انہدام، شیعہ کے برحق عقائد سے عملی طریقے سے دشمنی کی، مسلمانوں کی نسل کشی کی، وغیرہ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دین و مذہب کو یہ خطرہ ہمیشہ لاحق رہتا ہے کہ دینی مسائل کے سلسلے میں بعض افراد کی غلط فہمی، انتہا پسندی اور گمراہ کرنے والی باتیں اس مذہب کے پیروکاروں کے عقائد کو کمزور کرتے ہوئے انہیں سیدھی راہ سے ہٹا نہ دیں۔
صہیونیت کے نظریہ ساز اس نتیجہ تک پہنچے کہ اس اسلام کو اندر سے نابود کرنا چاہیے اور اس کا سارا حل ہتھیار نہیں ہے، کیونکہ عقیدہ اور تفکر کو ہتھیاروں سے نہیں بدلا جاسکتا، اسی لیے انہوں نے ایسا فرقہ بنایا جس کے نظریے دوسرے مسلمانوں سے الگ تھے، جو فرقہ ان کی مرضی اور خواہش کے مطابق فتوا دیتا اور عمل درآمد کرتا ہے، وہ ہے فرقہ وہابیت۔ تین صدیوں سے زائد عرصہ سے دنیا بھر کے مسلمان، وہابیت سے اذیتیں برداشت کررہے ہیں، اس فرقہ نے مسلمانوں کو ناقابل تلافی اور گہرے نقصانات پہنچائے ہیں۔
وہابیت کے بدعت پر مبنی اور من گھڑت فتوے، فقہ حنبلی کے اعتقادات کی بنیاد پر چوتھی صدی میں ایجاد کیے گئے جو سلفی تعریفوں کے مطابق آٹھویں صدی میں دوبارہ زندہ کردیئے گئے اور بارہویں صدی میں منظم کیے گئے اور چودہویں صدی میں دنیا کے ایک خطہ سے دوسرے خطہ میں سیاسی آلۂکار کے طور پر بھیجے گئے۔
ان کے ناپاک عزائم کے سامنے جو مذہب رکاوٹ ہے وہ مذہب حقہ شیعہ ہے، اسی لیے انہوں نے دو پلان بنائے ایک اسلام کے لئے اور دوسرا خاص طور پر شیعوں کے لئے۔
پہلے پلان کے مطابق ان کا مقصد اسلامی تاریخی عمارتوں کا انہدام تھا جو آٹھ شوال کو رونما ہوا اور اس کے علاوہ کئی بار مسمار کیا گیا، حرام ہونے اور توسیع دینے اور دیگر مختلف بہانوں سے۔
اس پلان کے تحت ان کا ہدف یہ تھا کہ دنیا بھر کے لوگوں کے دلوں میں اسلام کی نفرت پیدا کریں تا کہ کوئی آدمی اسلام کی طرف مائل نہ ہونے پائے اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو، اسی لیے انہوں نے وہابیت کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ ایسی وحشیانہ قتل و غارت کریں جو حتی درندوں سے بھی نہیں دیکھی گئی، وہ بھی ان کیمروں کے سامنے جن کے میڈیا کے مالک یہی صہیونزم ہی ہیں تاکہ دہشت پھیلانے والی یہ تصاویر منظر عام پر آئیں اور لوگ دیکھ کر اسلام سے خوفزدہ ہوجائیں۔
مسلمانوں کی جو تصویر پیش کرتے ہیں وہ یہی وہابیوں کے چہرے ہیں، بڑی داڑھی، چہرے کی صورتحال انتہائی نفرت انگیز، ہاتھوں میں ہتھیار اٹھائے ہوئے، جسے دیکھنے والے کا مسلمان کے بارے میں تصور یہ بن جاتا ہے کہ حق کی جستجو کرنے والا نفرت کا شکار بن کر اسلام اور مسلمانوں سے بیزاری اختیار کرلے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے پاک و پاکیزہ اور معصوم چہرے کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے، قرآن کی محبت آمیز تعلیمات کو چھپا دیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل بیت (علیہم السلام) کی رحمت بھری زندگی کی عملی سیرت کو مخفی کرتے ہوئے طاق نسیان پر رکھ دیا اور تاریخ کے صفحات کو پیچھے کی طرف ورق گردانی کرتے ہوئے اسی زمانہ جاہلیت اور دور ابوجہل و ابوسفیان کو پلٹا دیا، انہی کی وحشی حرکات کو زندہ کردیا اور انہی کے ظلم و فساد کو فروغ دے دیا، یہاں تک توہین رسالت دوبارہ ہونے لگی، آل رسول (ص) کی حرمت کو دوبارہ بلکہ کئی بار پامال کردیا، ان حضرات کے پیروکاروں کو آل یاسر اور بلال حبشی کی طرح دوبارہ شکنجوں کا نشانہ بنا دیا، جن معصوم ہستیوں نے رسول اللہ (ص) کے بعد اپنی جان دے کر مٹتے ہوئے دین کو آباد کیا، انہی کے روضوں کو مسمار کرکے آج تک ویران رکھا گیا ہے، عالمی سطح پر آج پھر ابوجہل اور ابوسفیان کی آواز وہابیت کی زبان سے گونجنے لگی ہے۔
وہابیوں کے عقائد، مسلمانوں کے متفقہ عقائد سے اتنے متضاد ہیں جن کو ثابت کرنے سے وہ عاجز ہیں بلکہ اہل سنت کے مآخذ میں ان کا رد پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ امام خمینی (علیہ الرحمہ) فرماتے ہیں: "وہابیوں کو اہل سنت بھی تسلیم نہیں کرتے، نہ کہ ہم تسلیم نہیں کرتے، ہمارے تمام بھائی بھی انہیں تسلیم نہیں کرتے"۔[1]
وہ قبروں پر گنبد، ضریح اور بقعہ وغیرہ بنانے کو حرام سمجھتے ہیں اور اسے خراب کرنا واجب جانتے ہیں اور اس مسئلہ میں اپنے پیشوا "ابن تیمیہ" اور اس کے شاگرد "ابن جوزیہ" کے پیروکار ہیں، اسی لیے انہوں نے چند آخری صدیوں میں، ممکنہ حد تک زیارت گاہوں اور قبروں کو ویران کردیا اور حتی ائمہ بقیع کی قبریں اور امام حسین (علیہ السلام) کی کربلا میں قبر مبارک کو بھی ویران کردیا۔
وہابی، قبر کے اوپر روضہ بنانے کو ایک طرح کا شرک اور کفر سمجھتے ہیں حالانکہ وہابیوں کے پاس اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے دھمکی اور تشدد کے استعمال کے بغیر کوئی ذریعہ نہیں ہے، یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ ائمہ اطہار (علیہم السلام) کے روضوں کے انہدام کے لئے کوشاں رہے ہیں۔
وہابیت کا کینہ اور بغض تمام مسلمانوں خاص طور پر شیعوں کے لئے روز روشن کی طرح عیاں ہے، کیونکہ سعودی عرب کے وہابیوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ مکہ و مدینہ کے دینی مذہبی مقامات کو مسمار کریں جس کا جیتا جاگتا ثبوت قبرستان بقیع کا انہدام ہے، جس میں چار ائمہ معصومین (علیہم السلام) اور دیگر مقدس ہستیوں کی قبریں پائی جاتی ہیں، انہوں نے اب تک دو مرتبہ اس تاریخ اسلام کے یادگار قبرستان کو مسمار کیا ہے، جسے مسمار کرنے سے صرف ان عظیم ہستیوں کی قبروں کی بے احترامی نہیں کی بلکہ وہ اسلامی تعلیمات اور احادیث کو بھی پامال کردیا جو قبروں کی بقا کی نشاندہی کرتی ہیں، یہاں تک کہ یہ وہابی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روضہ کو بھی منہدم کرنا چاہتے تھے لیکن مسلمانوں کی مخالفت سے سامنا کرتے ہوئے اس اقدام سے دستبردار ہوگئے، کل تک تو ہم سنتے رہے کہ یہ لوگ محبت رسول (ص) کے دعویدار ہیں، لیکن آج حقیقت کھل کر سامنے آگئی اور منافق نے اپنے حقیقی چہرہ سے نقاب ہٹا کر یہ ثابت کردیا کہ جسے آل رسول (ص) سے محبت نہ ہو اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی محبت نہیں ہوسکتی، انہوں نے اس کا ثبوت کیا پیش کیا؟ ثبوت یہ پیش کیا کہ جس نے آل رسول (ص) کے روضوں کو منہدم کردیا وہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے روضہ کو بھی منہدم کرنا چاہتا ہے، یہاں سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے محبت نہیں اسے اللہ تعالی سے بھی یقیناً محبت نہیں، اس کا ثبوت یہ ہے کہ کئی بار خانہ خدا کے زائرین کو شہید کرچکے ہیں اور حاجیوں کی حرمت کو پامال کرچکے ہیں اور وہ عالمی احتجاجوں سے بھی اپنے اندر کوئی تبدیلی نہیں لاتے بلکہ آئے دن ان کے ظلم کا سیلاب یوں بڑھتا چلا جارہا ہے کہ دنیا کے مشرق و مغرب میں پھیل گیا ہے۔ صہیونزم کا دوسرا پلان واضح ہے کہ دنیا میں جہاں بھی شیعہ ہیں ان کا خاتمہ کرنا مقصود ہے۔
اگر سعودی عرب کے حالات کو سیاسی نقطہ نظر سے پرکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سعودیہ کے یہ شہزادے ایک دوسرے کے لئے نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں اور انہیں ایک دوسرے سے اس طرح کے خطرات لاحق رہتے ہیں کہ بعض اوقات ان کے آپس میں بھی اقتدار کی کھینج تان شروع ہوجاتی ہے اور کبھی عوام، آل سعود کے خلاف سراپا احتجاج ہوتی ہے۔ آل سعود نے اسلام کی اس طرح شکل بگاڑ دی کہ منافقانہ لبادہ اوڑھ کر بیرونی اسلامی ممالک کے لئے عظیم خطرہ بن گیا اور اندرون ملک بھی عوام کو وحشیانہ ظلم کا نشانہ بنا دیا اور عوامی احتجاج کو کچل دیا، اس کے علاوہ بے باک اور شجاع سیاسی و مذہبی راہنما شیخ باقر النمر کو قید و بند کی صعوبتوں اور سختیوں میں ڈال کر شہید کردیا۔ کبھی کسی مسلمان ملک پر حملہ کرکے شب و روز نسل کشی کررہا ہے اور کبھی کسی کو بے گناہ گرفتار کرکے شہید کررہا ہے، آل سعود کا عرصہ دراز سے جو مشترکہ ظلم دیکھائی دیتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کا ظلم عام طور پر شیعہ قوم پر ہی ہوتا رہا ہے اور ہر دور میں اس کے تیر دنیا بھر کے شیعوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں، یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ جواب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نورانی فرمان سے ملتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: " الملك يبقى مع الكفر ولا يبقى مع الظلم"[2]، "حکومت کفر سے باقی رہ سکتی ہے ظلم سے باقی نہیں رہتی"، لہذا اس ظالم حکومت کا زوال آکر ہی رہے گا جس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ انسان دشمن حکومت، دن بدن انحطاط کی طرف بڑھتی جارہی ہے جس کا کچھ عرصہ سے شیرازہ بکھرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اسلامی برادری کے لئے یہ بات واضح رہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے غدیر خم میں اعلان ولایت کرکے اللہ تعالی کی بارگاہ اقدس میں یہ دعا مانگی تھی: "اللهم وال من والاه و عاد من عاداه" [3]، " اے اللہ اسکو دوست رکھ جو علی (ع) کو دوست رکھے اوراس کو دشمن رکھ جو علی (ع) کو دشمن رکھے"، قبرستان بقیع کو وہابیوں نے منہدم کرکے امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے دشمنی کی، امت مسلمہ کو جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالی وہابیوں سے دشمنی کرتا ہے، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دعا ہے۔
وہابیت کے اسرائیل سے اتنے گہرے اور پرانے تعلقات ہیں کہ امام خمینی (علیہ الرحمہ) فرماتے ہیں: "مسلمان نہیں جانتے کہ اس دکھ کو کہاں لے جائیں کہ آل سعود اور "خادم الحرمین" اسرائیل کو اطمینان دلاتا ہے کہ ہم اپنے ہتھیار تمہارے خلاف استعمال نہیں کریں گے! اور اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے ایران سے تعلق بند کردیتا ہے، حقیقتاً اسلامی ممالک کے سربراہوں کا تعلق کس قدر صہیونیوں سے گہرا اور محبت آمیز ہوگیا ہے کہ اسلامی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس میں اسرائیل سے بناوٹی اور ظاہری مقابلہ بھی ان کے منشور اور جلسوں سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اگر ان میں ذرہ بھر بھی اسلامی اور عربی غیرت اور جوش پایا جاتا تو ایسے ناپاک سیاسی معاملہ اور خود فروشی اور وطن فروشی کے لئے تیار نہ ہوتے۔
کیا یہ حرکات اسلامی دنیا کے لئے شرم کا باعث نہیں؟ اور بیٹھ کر دیکھنا گناہ و جرم نہیں ہے؟ کیا مسلمانوں میں کوئی نہیں جو اٹھ کھڑا ہو اور اتنے ننگ و عار کو برداشت نہ کرے؟
حقیقتاً، کیا ہمیں بیٹھ جانا چاہیے تاکہ اسلامی ممالک کے سربراہ، ایک بلین مسلمانوں کے جذبات کو نظر انداز کردیں اور صہیونیوں کی ان تمام تباہیوں کو صحیح سمجھیں؟[4]
نتیجہ: وہابیوں نے بقیع کے انہدام سے مسلمانوں کے جذبات کو زخمی کردیا اور مسلمانوں کو ان کے اسلامی میراث سے جدا کرنے کے لئے مختلف اقدامات کیے، کبھی صہیونزم کے اشارے سے شیعوں کو قتل کیا، کبھی شیعوں کے ائمہ اطہار (علیہم السلام) کے روضوں کو منہدم کیا اور اگر مسلمانوں نے ان مقدس قبروں کی تعمیر نو کی تو وہابیت نے دوبارہ تخریب کردی۔ امت مسلمہ کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ سالہا سال سے آج تک قبرستان بقیع میں آل رسول (ص) کی قبریں اسی طرح بغیر ضریح کے پڑی ہیں جیسے کربلا کی زمین پر سیدالشہدا (علیہ السلام) کا لاشہ بے کفن پڑا رہا۔ وہابیت کی نابودی بے کس و بے بس مظلوم مسلمانوں کے دل کی دعا ہے اور مسلمانوں کو متحد ہوکر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جس سے صہیونزم کے ناپاک عزائم کو منزل مقصود تک پہنچانے والی آل سعود کی نالائق حکومت کا تختہ الٹ دیں اور اس نسل ابوسفیان کی سفاکانہ تباہیوں کی روک تھام کرسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] صحیفه امام، ج15، ص454۔
[2] شرح أصول الكافی، ملا صالح مازندرانی، ج9، ص386.
[3] إثبات الهداة، شیخ حر عاملی، ج3، ص286۔
[4] صحیفه امام، ج21، ص 81 ـ82۔
Add new comment