خلاصہ: حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) شیعہوں کے آٹھویں امام ہیں جو اللہ تعالی کی جانب سے منصب امامت پر فائز ہوئے۔ آپ نے ۲۰ سال امامت کی، جس میں سے پانچ سال مامون کے زمانہ حکومت میں گزرے، آپ کو مامون نے قتل کی دھمکی دیتے ہوئے مجبور کیا کہ آپ ولیعہدی کو قبول کریں، تو مجبوراً آپ نے اس منصب کو قبول کرلیا مگر کچھ شرطوں کے ساتھ جنہیں اگلے مقالات میں بیان کیا جائے گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت ابوالحسن علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) شیعوں کے بارہ اماموں میں سے آٹھویں امام ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے منصوب ہیں، آپ کی کنیت "ابوالحسن" ہے اور زیادہ مشہور لقب "رضا" ہے اور خاص افراد آپ کو "ابوعلی" کہا کرتے تھے۔ آپ کے دیگر القاب صابر، زکی، ولی، وفی، سراج الله، نورالهدی، قرة عین المؤمنین، مکیدة الملحدین، کفو، الملک، کافی الخلق ہیں۔[1]
آپ کی شہر مدینہ میں ولادت ہوئی، ولادت کے بارے میں مختلف تاریخیں نقل ہوئی ہیں جن میں سے مرحوم کلینی نے ۱۴۸ ہجری قمری نقل کی ہے۔اکثر علماء و مورخین کی نظر بھی یہی ہے۔
آپ ۲۰ سال مقام امامت پر فائز رہے۔ آپ کی حیات مبارک کے بارے میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں، ۴۷ سے ۵۷ سال تک بتایا گیا ہے۔ ولادت اور شہادت کے بارے میں اکثر نے آپ کی حیات طیبہ کی مدت ۵۵ سال بتائی ہے۔
آپ کے والد گرامی، ساتویں امام حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ کنیز تھیں جن کا اسم گرامی تکتم تھا، ان کا یہ نام تب رکھا گیا جب حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) ان کے مالک ہوئے اور جب حضرت امام رضا (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی تو حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے "تکتم" کو طاہرہ کا نام دیا۔ نیز آپ کو اروی، نجمہ اور سمانہ بھی کہا گیا ہے اور آپ کی کنیت ام البنین ہے۔ ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آنحضرت کی والدہ گرامی، پاک و پرہیزگار کنیز تھیں جن کا نام نجمہ تھا، ان کو حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی والدہ جناب حمیدہ نے خریدا اور اپنے بیٹے کو بخش دی اور حضرت امام رضا (علیہ السلام) کی ولادت کے بعد انہیں طاہرہ کہا گیا۔[2]
زوجہ
آپ کی ایک زوجہ تھیں جن کا اسم گرامی سبیکہ تھا جو کہا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ ماریہ کے خاندان میں سے تھیں۔[3]
اولاد
آپ کی اولاد کی تعداد اور ان کے ناموں کے بارے میں مورخین نے مختلف باتیں نقل کی ہیں، بعض نے پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی کے نام ذکر کیے ہیں، بعض نے تین بیٹے اور ایک بیٹی بتائی ہے۔ شیخ مفید (علیہ الرحمہ) صرف محمد ابن علی کو آپ کے فرزند جانتے ہیں، ابن شہر آشوب اور طبرسی کا بھی یہی نظریہ ہے۔
امامت
حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد امام رضا (علیہ السلام) ۳۵ سال کی عمر میں مقام امامت پر فائز ہوئے۔ امامت کا مسئلہ اگرچہ آپ کے والد گرامی کی حیات کے آخری حصہ میں بہت پیچیدہ ہوگیا، لیکن امام موسی کاظم (علیہ السلام) کے اکثر اصحاب نے آنحضرت کی طرف سے حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) کی خلافت کو قبول کرلیا۔
والد گرامی کے بعد آپ کی امامت تقریباً۲۰ سال تھی جو ہارون الرشید (۱۰ سال)، محمد امین (تقریباً ۵ سال) اور مامون (تقریباً ۵ سال) کے زمانے میں تھی۔ دوسرے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں سے سترہ سال مدینہ میں اور تین سال خراسان میں تھے۔
ہجرت
حضرت امام رضا (علیہ السلام) کی مدینہ سے مرو کی طرف ہجرت ۲۰۰ یا ۲۰۱ ہجری میں واقع ہے۔ مامون الرشید نے امام (علیہ السلام) کے لئے خاص راستہ مقرر کیا تا کہ آپ شیعہ نشیں علاقوں سے نہ گزریں۔ کیونکہ وہ شیعوں کا امام (علیہ السلام) کے اردگرد جمع ہونے سے ڈرتا تھا، اس نے خاص طور پر حکم دیا کہ آنحضرت کو کوفہ کے راستہ سے نہیں بلکہ بصرہ، خوزستان، فارس اور نیشابور سے لایا جائے۔
حدیث سلسلۃ الذہب کو بیان کرنا
حدیث سلسلۃ الذہب ایسا اہم ترین اور مستندترین واقعہ ہے جو سفر کے دوران نیشابور میں پیش آیا کہ حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے وہاں پر وہ حدیث ارشاد فرمائی جو سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور ہے۔
اسحاق ابن راہویہ کا کہنا ہے: جب حضرت امام رضا (علیہ السلام) خراسان کی طرف سفر کرتے ہوئے نیشابور پہنچے، اس کے بعد کہ جب آپ نے مامون کی طرف کوچ کرنا چاہا، محدثین جمع ہوگئے اور انہوں نے عرض کیا: اے فرزند پیغمبر! ہمارے شہر سے تشریف لے جا رہے ہیں اور ہمارے لیے کوئی حدیث بیان نہیں فرماتے؟ اس درخواست کے بعد حضرت نے اپنا سر مبارک کجاوہ سے باہر نکالا اور فرمایا:
"میں نے سنا اپنے والد موسی ابن جفعر (ع) سے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد جعفر ابن محمد (ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد محمد ابن علی (ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد علی ابن الحسین(ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد حسین ابن علی (ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ میں نے جبرئیل سے سنا کہ انھوں نے کہا کہ میں نے پروردگار عزوجل سے سنا کہ اس نے فرمایا: " لا إلهَ إلّا اللَّه حِصْنى، فَمَن دَخَلَ حِصْنى أمِنَ مِن عَذابى" کلمہ "لا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ" میرا قلعہ ہے، پس جو میرے قلعہ میں داخل ہوجائے، میرے عذاب سے بچ جائے گا"، پس جب حضرت کی سواری چل پڑی تو آپ نے بلند آواز سے فرمایا: "بِشُرُوطِهِا و أنا مِن شُرُوطِها" اس کی شرطوں کے ساتھ اور میں ان شرطوں میں سے ہوں۔[4]
ولی عہدی
جب مامون نے دیکھا کہ حضرت امام رضا (علیہ السلام) ہرگز خلافت کو قبول نہیں کررہے تو کہا: آپ جو خلافت کو قبول نہیں کررہے تو میرے ولی عہد اور جانشین بنیں تا کہ میرے بعد خلافت آپ تک پہنچے۔ حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے جبکہ مامون کی نیت کو جانتے تھے، فرمایا: خدا کی قسم، میرے والد نے اپنے آباء سے اور انہوں نے امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خبر دی ہے کہ مجھے انتہائی مظلومیت سے زہر دی جائے گی اور تم سے پہلے انتقال کروں گا، آسمان و زمین کے ملائکہ مجھ پر گریہ کریں گے، اور ایک غریب سرزمین میں ہارون کے پاس دفن کیا جاوں گا۔ مامون نے کہا: اے فرزند رسول اللہ! جب تک میں زندہ ہوں کس کی جرات ہے کہ آپ کی توہین کرے اور آپ کو قتل کرے؟ حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: اگر میں بتانا چاہوں کہ کون مجھے قتل کرے گا تو بتا سکتا ہوں۔ مامون نے جب تمام راستے بند ہوئے دیکھے تو ایک اور چال چلتے ہوئے کہا: آپ اس بات کے ذریعہ اپنے آپ کو سبکدوش کرنا چاہتے ہیں کہ لوگ کہیں کہ آپ دنیا کے طالب نہیں ہیں اور دنیا کے پیچھے نہیں پڑے ہوئے! امام (علیہ السلام) نے فرمایا: خدا کی قسم! جب سے اللہ تعالی نے مجھے خلق کیا، میں ہرگز جھوٹ نہیں بولا اور دنیا اور لوگوں کی خاطر، دنیا سے دوری اختیار نہیں کی۔ اے مامون ! میں جانتا ہوں کہ تمہاری نیت کیا ہے۔ مامون نے کہا: میری نیت کیا ہے؟ امام (علیہ السلام) نے فرمایا: تو چاہتا ہے کہ مجھے اپنا ولی عہد بنائے تا کہ لوگ کہیں کہ یہ علی ابن موسی الرضا دنیا سے دوری اختیار نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ دنیا تک پہنچ نہیں سکے، دیکھو جب مامون نے ولی عہدی کی پیشکش کی تو اس نے کیسے خلافت اور ریاست کی لالچ کی اور اسے قبول کرلیا!۔ جب مامون نے دیکھا کہ حضرت امام رضا (علیہ السلام) اس کی نیت کو جانتے ہیں تو غصہ سے کہنے لگا: آپ ہمیشہ ناگوار باتیں میرے سامنے کرتے ہیں اور اپنے آپ کو میری ہیبت اور جلال سے امان میں سمجھتے ہیں! خدا کی قسم، اگر آپ نے میری ولی عہدی کو قبول کرلیا تو ٹھیک، ورنہ آپ کو مجبور کروں گا اور اگر پھر بھی قبول نہ کیا تو آپ کی گردن اڑا دوں گا۔[5]
امام (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ مامون اپنے ارادہ سے ہرگز دستبردار نہیں ہوگا تو آپ نے ولی عہدی کو قبول کیا لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔
شہادت
جب مامون نے دیکھا کے اپنے ناپاک مقاصد تک نہیں پہنچ پایا، بلکہ آپ کو ولی عہدی کا منصب دیتے ہوئے اپنے آپ کو مشکل میں ڈال بیٹھا ہے تو اس نے آنحضرت کو ۵۵ سال کی عمر میں زہر سے شہید کردیا۔
حضرت علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) کا روضہ مطہر ایران کے شہر مشہد مقدس میں ہے، اس روضہ مقدس کی زیارت کے لئے لاکھوں لوگ دنیابھر سے شرفیاب ہوتے ہیں۔ آپ کی ولایت، مودت اور محبت ساری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں آپ کے حرم مطہر اور ضریح مبارک کی زیارت کے لئے کشش پیدا کرتی ہے۔
نتیجہ: حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) نے اپنے والد امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد منصب امامت کو سنبھالا، آپ نے بیس سال امامت کی جس میں سے ۱۷ سال مدینہ میں اور ۳ سال خراسان میں گزارے، خلیفہ وقت مامون نے آپ کو دھمکی دیتے ہوئے ولی عہدی کو قبول کرنے پر مجبور کردیا، لہذا آپ نے ولی عہدی کو مجبوری سے اور چند شرطوں کی بنیاد پر قبول کیا، مامون کا اس ولی عہدی سونپنے سے مقصد اپنے ناپاک عزائم تک پہنچنا تھا اور نیز یہ بھی تھا کہ وہ امام (علیہ السلام) پر کڑی نظر رکھے تاکہ آنحضرت اللہ کے دین کی ایسے طریقے سے تبلیغ نہ کرپائیں جس سے لوگ آپ کے گرویدہ ہوجائیں اور سب لوگ آپ کی فرمانبرداری کرتے ہوئے غاصب حکومت وقت کی مخالفت کریں، مگر اس کے باوجود بھی مامون اپنے ظالمانہ مقاصد تک نہ پہنچ پایا کیونکہ امام (علیہ السلام) کا لوگوں سے برتاو، اخلاق اور کردار ایسا تھا کہ لوگ ایسے باکردار اور صاحب کمال انسان کو دیکھ کر آپ کی طرف مائل ہوجاتے، آخرکار مامون نے آٹھویں تاجدار امامت و ولایت کو زہر سے شہید کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] بحارالانوار، ج49، ص10۔
[2] عیون اخبار الرضا، ج2 ص 24۔
[3] الکافی، ج1، ص492۔
[4] ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ص21-22۔ امالی شیخ صدوق، ص306
[5] بحارالانوار، ج 49، ص 128، ح 3 سے ماخوذ اور نقل بہ مضمون۔
Add new comment