خلاصہ:اس مقالہ میں ایسے اسلام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو در حقیقت اسلام نہیں ہے بلکہ اسلام کے نام پر ایسا مشن ہے جو حقیقی اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے بنایا گیا ہے، ایسے اسلام کواستعماری اسلام کہتے ہیں۔
اسلام وہ جامع نظام حیات ہے جس نے انسانوں کی کھوئی ہوئی قدروں کو زندہ کیا۔ جہالت کو علم میں اور ظلمت کو ہدایت میں بدل دیا۔ محروموں کو محرومیت کے دلدل سے نکال کر معاشرے کے دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے افراد کے برابر لے آیا۔ عرصہ دراز سے رسم و رواج کے نام پر ہونے والے بے بنیاد اور موہوم طور و اطوار اور عجیب و غریب خدوخال پر خط بطلان کھینچ کر معاشرے کے ڈھانچے کو عقل و منطق کی بنیاد پر استوار کیا۔ ناموس کی پامال شدہ عزت کو از سرنو بحال کرکے انھیں معاشرے کا رکن اصیل قرار دیا۔ ان کے وجود کو زندہ درگور ہونے سے بچا کر ماں، بہن اور بیٹی کی عناوین سے مزین کیا۔ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے منظم اور قابل عمل اصول و ضوابط کا تعارف کروایا۔
اسی لئے مختلف حزبوں سے لوگ جوق در جوق برضا و رغبت اسلام کی چار دیواری میں پناہ لیتے گئے۔ المختصر تھوڑے ہی عرصے میں یہ دین نصف جہاں میں پھیل گیا۔ یوں ایوان اقتدار پر قابض حکمرانوں کے ایوانوں میں زلزلہ طاری ہونے لگا۔ وہ اپنی دانست و طاقت کے مطابق اسلام کے خلاف پینترے کھیلتے رہے۔ جب انھیں ہر جہت سے شکست سے دوچار ہونا پڑا تو وہ ورطہ حیرت میں پڑ گئے کہ کس طرح اس دین مبین کا چہرہ مسخ کیا جائے۔ ہر شیطان صفت نے اپنی شیطانیت دیکھائی لیکن اسلامی بنیادیں معاشرے میں اتنی راسخ ہو چکی تھیں کہ اب اس میں رخنہ ڈالنا ایک ناممکن سا عمل بن گیا تھا۔ اب انھوں نے اپنے تیور بدل لیے۔ انھوں نے یہ تدبیر سوچی کہ اسلام کی بنیادیں تو اب راسخ ہوچکی ہیں پس ہمیں چاہیئے کہ مسلمانوں کا چہرہ مسخ کریں، لہذا انھوں نے ایسے اسلام کی ایجاد کی جس سے حقیقی اسلام کی تصویر کو میلا کرسکیں، جو نام کے تو مسلمان ہوں لیکن حقیقی مسلمان کی شبیہ کو خراب کرسکیں، استعماری طاقتوں نے جب ایسے اسلام کی تلاش کرنے کی کوشش کی تو دیکھا "ابن تیمیہ" اور " محمد بن عبدالوہاب" جیسوں کی بے بنیاد فکریں بھی موجود ہیں چنانچہ انھوں نے ایسے ہی فکروں کو اسلام اور اسکے ماننے والوں کو مسلمان کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کرنا شروع کردیا۔
چنانچہ مقالہ ھذا میں حقیقی اسلام اور وہابی اسلام کہ در حقیقت وہ استعماری اسلام ہے کے درمیان مقایسہ کر کے آخر میں نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فیصلہ قارئین کے سپرد کیا گیا ہے۔
حقیقی اسلام اور وہابی اسلام کے درمیان فرق
حقیقی اسلام کو سمجھنے کے لئے ہمارے پاس دو راستے اور منابع ہیں ایک قرآن دوسرے احادیث (اہل بیت علیھم السلام)۔
جب ہم قرآن و حدیث کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ان دونوں میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ملتا کہ اولیاء الہی سے توسل کرنا شرک ہے جیسا کہ وہابی افراد عقیدہ رکھتے ہیں، بلکہ اسکے بر خلاف قرآن مجید میں صاف لفظوں میں اعلان ہے"وَ ما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ لِيُطاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّاباً رَحيما"اورہم نے کسی رسول کو بھی نہیں بھیجا ہے مگر صرف اس لئے کہ حکم خدا سے ان کی اطاعت کی جائے اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے۔[1]
ممکن ہے کوئی کہے یہ آیت ان لوگوں کے لئے ہے جس دور میں رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) زندہ تھے تو زندہ سے مانگنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اب رسول کا انتقال ہوگیا ہے تو کیسے ان سے استغفار کی درخواست کی جاسکتی ہے؟ اس کا مختصر جواب یہی ہے کہ در اصل پیغمبر اسلام ظاہری طور پر ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر کسی چیز کا سامنے نہ ہونا اسکے موت کی دلیل نہیں ہوتی، آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کا درجہ، شہداء کے درجوں سے زیادہ ہے، اور شہداء وہ مقدس افراد ہیں جو خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور اس سے رزق حاصل کر رہے ہیں۔[2] گویا جس طرح سے شہداء زندہ و جاوید ہیں اسی طرح سے رسول اسلام اور دوسرے اولیاء خدا زندہ ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح سے رسول سے ان کی زندگی میں درخواست و توسل کرتے تھے، اب بھی ان سے توسل و درخواست کرسکتے ہیں۔
اسلام کے کسی منبع و ماخذ میں قبور کا احترام اور ان کی زیارت کرنا شرک نہیں ہے، جبکہ وہابی اس بات کے قائل ہیں قبور کی زیارت اور ان کا احترام کرنا شرک ہے، قرآن کریم میں واضح طور پر اس صندوق کا احترام ملتا ہے جس میں جناب موسی رکھے گئے تھے اور جسکی بناء پر انکی جان بچائی گئی تھی۔[3]جب قرآن حضرت موسی کے صندوق کا احترام کا اعلان کرسکتا ہے تو کیا فخر موسی حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اور اولیاء خدا کی قبر کا احترام کیسے شرک ہوسکتا ہے؟
اور کیوں روضوں کی تعمیر کرنا (کہ جس کی بناء پر اولیاء خدا کی یاد تازہ رہے)شرک ہوگا جبکہ خداوند عالم قرآن کریم میں اصحاب کہف کی غار کے پاس ان کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے مسجد بنانے کا حکم دے رہا ہے۔[4]
مطالب بالا سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہابی جس اسلام کی دعوت دے رہے ہیں در حقیقت وہ اسلام کے نام پر ایک فریب اور دھوکا ہے جو اسلام اور مسلمان کو بدنام کرنے لئے کررہے ہیں۔ وہابیت مسلمانوں کے نام پر ایک دھبہ ہے جسے اسی لئے بنایا گیا ہے تاکہ اسلام کی حقیقی تصویر کو میلا کیا جاسکے اور اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ختم کیا جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1]نساء/۶۴۔
[2] آل عمران/۱۶۹۔
[3] القصص/7۔
[4] تفسیر نمونہ ج۱۲، ص388در تفسیر آیت ۲۱ سورہ کہف، ناصر مكارم شيرازى، اتشارات دار الكتب الإسلامية ،تهران، چاپ اول 1374 ش۔
Add new comment