خلاصہ: یہ مقالہ ان سادہ لوح افراد کے لئے ہے جو داعش جیسے دہشت گرد کالعدم گروہ کو حقیقی مسلمان اور ان کے قوانین کو حقیقی اسلام تصور کرتے ہیں۔ اس مقالہ میں ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام کا قتل و غارتگری، خون ریزی اور دہشت گردی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے اور ایسے گروہ کا کوئی تعلق اسلام و مسلمان سے نہیں ہے۔
بعض افراد حقیقی اسلام سے واقفیت نہیں رکھتے اور ایسے اسلام سے نابلد افراد، جو بھی اسلام کے نام پر علم لیکر کھڑا ہوجاتا ہے اسے حقیقی مسلمان اور ان کے افعال کو حقیقی اسلام سمجھ لیتے ہیں۔
دور حاضر میں بعض منحرف اور گمراہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہہ رہے ہیں، اسلام کے نام پر لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، جگہ جگہ قتل و غارتگری کا بازار گرم کر رہے ہیں، دہشت گردی کو بڑھوا دے رہے ہیں، انھیں جیسے لوگوں کو سادہ لوح افراد، مسلمان اور ان کے اعمال و افعال کو اسلام سمجھ کر دین اسلام سے متنفر ہوجاتے ہیں، جبکہ حق یہ ہے کہ پہلے حق و حقیقت کو جانیں، اسکے بعد فیصلہ کریں۔ جیسا کہ امام علی (علیہ السلام )فرماتے ہیں: "اعْرِفِ الْحَقَّ تَعْرِفْ أَهْلَہ"حق و حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرو اہل حق کی معرفت خوبخود ہوجائے گی۔[1]
لہذا پہلے ضروری ہے کہ ہم حقیقی اسلام کو جانیں تاکہ مدمقابل کے مصنوعی اسلام کو سمجھ سکیں، چنانچہ حقیقی اسلام کو سمجھنے کے لئے ہمارے پاس دو راستے اور منابع ہیں ایک قرآن دوسرے احادیث (اہل بیت علیھم السلام)۔
قرآن کریم اور حادیث مبارکہ میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ملتا کہ اپنے عقیدہ کو دوسروں کے عقیدہ پر حمل کرو، بالفاظ دیگر، قرآن کریم قطعا اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ زبردستی کسی سے اپنا دین منوائو۔ جیسا کہ داعش اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کا خیال ہے کہ اگر کوئی ان کا ہم عقیدہ نہیں ہوتا تو اسے مشرک اور واجب القتل جانتے ہیں، ان کے نزدیک یہ ہے کہ یا ان کی طرح مسلمان رہو یا اس دنیا سے رخصت ہوجائو جبکہ قرآن کریم میں اعلان ہے "لا إِكْراهَ فِي الدِّين"[2]۔
قرآن کریم کے اتنے واضح اعلان کے با وجودجو شخص بھی ان تنظیموں (داعش، القاعدہ وغیرہ)کے ہم عقیدہ نہیں ہوتا، اسے قتل کر دیتے ہیں جبکہ قرآن میں کہیں نہیں ملتا جس میں کہا گیا ہو کہ مسلمانوں کو قتل کرو بلکہ اعلان ہوتا ہے۔" وَ لا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَياةِ الدُّنْيا فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثيرَةٌ كَذلِكَ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ "ایمان والو! جب تم راہ خدا میں جہاد کے لئے سفر کرو تو پہلے تحقیق کرلو اور خبردار جو اسلام کی پیش کش کرے اس سے یہ نہ کہنا تو مومن نہیں ہے کہ اس طرح تم زندگانی دنیا کے چند روزہ سرمایہ چاہتے ہو اور خدا کے پاس بکثرت فوائد پائے جاتے ہیں،آخر تم بھی تو پہلے ایسے ہی کافر تھے خدا نے تم پر احسان کیا کہ تمہارے اسلام کو قبول کرلیا(اور دل توڑنے کی شرط نہیں لگائی)۔[3]
دوسرے مقام پرخداوند عالم نے حقیقی اسلام سے متمسک رہنے کے لئے حکم دیا ہے، اور شیطان کے راستے پر(ایک دوسرے کو قتل کرنے، ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے ) چلنے کو سخت منع کیا ہے، ارشاد ہوتا ہے۔" يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَ لا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبين"ایمان والو تم سب مکمل طریقہ سے اسلام میں داخل ہوجائو اور شیطانی اقدامات کا اتباع نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔[4]
حتی قرآن نے غیر مسلمان کو قتل کرنے کو نہیں کہا بلکہ ارشاد ہوتا ہے:" قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَ بَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَ لا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئاً وَ لا يَتَّخِذَ بَعْضُنا بَعْضاً أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُون"اے پیغمبر آپ کہہ دیں کہ اہل کتاب آؤ ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کرلیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں کسی کو اس کا شریک نہ بتائیں آپس میں ایک دوسرے کو خدائی کا درجہ نہ دیں اور اس کے بعد بھی یہ لوگ منھ موڑیں تو کہہ دیجئے کہ تم لوگ بھی گواہ رہنا کہ ہم لوگ حقیقی مسلمان اور اطاعت گزار ہیں[5]۔اس آیت میں بھی کہیں نہیں ملتا کہ پیغمبر اسلام کو خدا نے حکم دیا ہو کہ اگر وہ تمہارے عقیدہ کو قبول نہ کریں تو تم ان سے جنگ کرو۔
مطالب بالا سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ داعشی جس اسلام کی دعوت دے رہے ہیں در حقیقت وہ اسلام کے نام پر ایک فریب اور دھوکا ہے جو اسلام اور مسلمان کو بدنام کرنے کے لئے ہے،"القاعدہ "اور" داعش "جیسے کالعدم گروہ مسلمانوں کے نام پر ایک دھبہ ہے جسے اسی لئے بنایا گیا ہے تاکہ اسلام کی حقیقی تصویر کو میلا کیا جاسکے اور اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ختم کیا جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] بحار الانوار، ج40، ص125، محمد باقر بن محمد تقى بن مقصود على مجلسى، معروف به علامه مجلسى و مجلسى ثانى،انتشارات مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان، 1404 قمرى۔
[2] بقرہ /۲۵۶۔
[3] نساء/۹۴۔
[4] بقرہ/۲۰۸۔
[5] آل عمران/۶۴۔
Add new comment