خلاصہ: حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نے دیگر معصومین (علیہم السلام) کی طرح نماز کو حقیر سمجھنے سے منع کیا ہے اور اس کا نقصان بتایا ہے۔ اس مقالہ آنحضرت کی اس سلسلے میں حدیث کے پیش نظر دوسرے معصومین (علیہم السلام) سے احادیث پیش کی گئی ہیں جو نماز کو حقیر سمجھنے کے نقصانات کے بارے میں ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان وہ مخلوق ہے جسے اللہ تعالی نے عقل کی نعمت سے نوازا ہے اور اس نعمت کو استعمال کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن جب انسان آخرت سے غافل ہوجاتا ہے تو اپنے مقاصد کو بھی اسی دنیا میں محدود کردیتا ہے، اور اس کی سوچ الٹا سوچنے لگ جاتی ہے، اچھی چیز کو برا اور بری کو اچھا، دور کو قریب اور قریب کو دور اور بڑی کو چھوٹی اور چھوٹی کو بڑی سمجھنے لگتا ہے، یہ شیطان کے حربوں میں سے ایک حربہ ہے کہ جو اہم نہیں اسے اہم بناکر پیش کرتا ہے اور جو اہم ہے اس پر غفلت، نسیان اور لاپرواہی کا پردہ ڈال دیتا ہے۔ ان میں سے ایک نماز ہے۔ نمار دین کا ستون ہے اور اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن و احادیث میں مختلف مقامات پر اس پر تاکید کی گئی ہے اور اہل بیت (علیہم السلام) نے اپنے اقوال اور اعمال و کردار کے ذریعے اس کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے اور ان کی سنت و سیرت مسلمانوں کے لئے نمونہ عمل اور اسوہ حسنہ ہے، مگر شیطان نے اس اہم عبادت کو مختلف طریقوں سے اتنا حقیر اور چھوٹا کرکے دکھایا ہے کہ بعض لوگ نماز کے وقت اپنے ایسے کام میں مصروف رہتے ہیں جیسے کسی نے ان کو آواز دی ہی نہیں، جبکہ اللہ تعالی انہیں اذان کے مختلف فقروں سے بار بار، اپنی بارگاہ میں بلا رہا ہے۔ اگر نماز قضا ہوجائے تو بعض افراد کو کوئی پریشانی محسوس نہیں ہوتی، بہت سارے لوگ نماز کو دیر سے پڑھتے ہیں، بعض لوگ اگر فضیلت کے وقت پر بھی پڑھیں تو سستی سے پڑھتے ہیں! اس کا نتیجہ اور نقصان کیا ہے؟
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نماز کو اہمیت دینے کے بارے میں فرماتے ہیں: "لا تَتَهاوَنْ بَصَلاتِكَ، فَإنَّ النَّبيَّ (صلى الله عليه وآله وسلم) قالَ عِنْدَ مَوْتِهِ: لَيْسَ مِنّى مَنِ اسْتَخَفَّ بِصَلاتِهِ، لَيْسَ مِنّى، مَنْ شَرِبَ مُسْكِراً، لا يَرِدُ عَلَىّ الْحَوْضَ، لا وَ اللهِ[1]"، "اپنی نماز کو معمولی نہ سمجھنا کیونکہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی وفات کے وقت فرمایا تھا کہ وہ شخص مجھ سے نہیں جو اپنی نماز کو حقیر سمجھے، وہ شخص مجھ سے نہیں جو نشہآور چیز پیے، خدا کی قسم! وہ حوض کوثر پر میرے پاس نہیں پہنچے گا"۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ۔ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ"[2]، " تو تباہی ہے ان نمازیوں کے لئے، جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں"۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں: " الصَّلاةُ عِمادُ الدِّينِ، فَمَن تَرَكَ صلاتَهُ مُتَعَمِّدا فَقَد هَدَمَ دِينَهُ، و مَن تَرَكَ أوقاتَها يَدخُلُ الوَيلَ، و الوَيلُ وادٍ في جَهَنَّمَ كما قالَ اللّه ُ تعالى: «فَوَيلٌ لِلمُصَلِّينَ * الذينَ هُمْ عَن صَلاتِهِم ساهُونَ»[3][4]، "نماز دین کا ستون ہے، تو جو شخص اپنی نماز کو جانتے ہوئے چھوڑ دے اس نے اپنے دین کو برباد کردیا ہے اور جو اسے اس کے وقت پر بجا نہ لائے، وہ ویل میں داخل ہوگا اور ویل جہنم میں ایک وادی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: "تو تباہی ہے ان نمازیوں کے لئے، جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں".
عنوان بحث روایت میں حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نماز کو حقیر سمجھنے سے منع فرما رہے ہیں۔ اس کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کو نقل کرتے ہیں۔
واضح ہے کہ نماز نہ پڑھنا ایک گناہ ہے، لیکن پڑھنے کے باوجود نماز کو حقیر اور بے اہمیت سمجھنا دوسرا گناہ ہے۔ نماز کو حقیر سمجھنے سے مراد یہ ہے کہ جو کام بھی نماز کو اہمیت نہ دینے کے مرادف ہو جیسے وقت پر نماز نہ پڑھنا، وضو اور اس کی مقدمات میں غور نہ کرنا، نماز کے اعمال (جیسے قرائت، ذکر، رکوع، سجود، اطمینان) کو صحیح طریقہ سے بجا نہ لانا اور حضور قلب کے بغیر نماز پڑھنا، نماز کو مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھ سکنے کے باوجود نہ پڑھنا وغیرہ۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نے یہ جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث نقل فرمائی ہے اس میں آنحضرت نے یہ نہیں فرمایا کہ جو نماز نہ پڑھے وہ مجھ سے نہیں ہے بلکہ فرمایا جو نماز کو حقیر سمجھے وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ آدمی نمازی ہو اور فضیلت کے وقت میں پڑھتا ہو لیکن ہوسکتا ہے کہ نماز کو اس طریقہ سے بجالائے کہ اسے ہلکا کام سمجھے اور لاپرواہی سے پڑھ کر نماز سے فارغ ہوجائے۔ ہوسکتا ہے کہ آدمی نماز کو فضیلت کے وقت میں بجالائے، لیکن نماز کے دیگر شرائط پر توجہ نہ کرے جس کی وجہ سے حقیر سمجھنا ثابت ہو۔
حجت الاسلام قرائتی کے درس سے ماخوذ مطالب کے مطابق نماز کو حقیر سمجھنے کے بارے میں احادیث میں چار عبارتیں پائی جاتی ہیں: "مَنِ اسْتَخَفَّ بِصَلَاتِهِ"[5] (جو شخص نماز کو حقیر سمجھے)، "مَنْ سَرَقَ صَلَاتَهُ"[6] (جو شخص اپنی نماز سے چوری کرے)، "مَنْ تَهَاوَنَ بِصَلَاتِهِ"[7] (جو شخص نماز کو حقیر سمجھے) "مَنْ ضَیَّعَ صَلَاتَهُ"[8](جو شخص اپنی نماز کو ضائع کردے)۔
ان عبارات میں ایک مشترکہ معنی پایا جاتا ہے اور البتہ ہوسکتا ہے کہ ان عبارات کے معنی کا آپس میں کچھ فرق بھی ہو، کیونکہ معصوم کا کلام ہے جو حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔
دیگر معصومین (علیہم السلام) نے بھی نماز کو حقیر سمجھنے کی مذمت کی ہے، جیسے:
رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: "لا يَنالُ شَفاعَتي مَنِ استَخَفَّ بِصلاتِهِ و لا يَرِدُ عَلَيَّ الحَوضَ لا و اللّه "[9]، "میری شفاعت اس شخص تک نہیں پہنچے گی جو اپنی نماز کو حقیر سمجھے اور اللہ کی قسم! حوض (کوثر) کے کنارے میرے پاس نہیں آئے گا"۔
جب حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی رحلت کا وقت قریب ہوا، آپ نے فرمایا:" إنَّ شَفاعَتَنا لَن تَنالَ مُستَخِفّا بِالصَّلاةِ "[10] "نماز کو حقیر سمجھنے والے تک یقیناً ہماری شفاعت ہرگز نہیں پہنچے گی۔"
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: "ما بينَ المسلمِ و بينَ الكافِرِ إلاّ أن يَترُكَ الصَّلاةَ الفَريضَةَ مُتَعَمِّدا، أو يَتهاوَنَ بها فلا يُصَلِّيَها"[11]، "مسلمان اور کافر کے درمیان فرق نہیں ہے سوائے واجب نماز کو جان بوجھ کر چھوڑ دے یا نماز کو حقیر سمجھ کر نہ پڑھے"۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "و اللّه ِ إنّهُ لَيَأتِي على الرَّجُلِ خَمسونَ سَنةً و ما قَبِلَ اللّه ُ مِنهُ صلاةً واحِدَةً، فأيُّ شَيءٍ أشَدُّ مِن هذا ؟! و اللّه ِ إنّكُم لَتَعرِفُونَ مِن جِيرانِكم و أصحابِكُم مَن لَو كانَ يُصَلِّي لِبَعضِكُم ما قَبِلَها مِنهُ لاستِخفافِهِ بها، إنّ اللّه َ عَزَّ و جلَّ لا يَقبَلُ إلاّ الحَسَنَ ، فكيفَ يَقبَلُ ما يُستَخَفُّ بهِ"[12]، "خدا کی قسم! (کبھی ایسا ہوتا ہے کہ) انسان پچاس سال کا ہوجاتا ہے اور اللہ اس سے حتی ایک نماز قبول نہیں کرتا اور اس سے بڑھ کر بری چیز کیا ہے؟ خدا کی قسم! تم لوگ اپنے پڑوسیوں اور دوستوں میں سے بعض کو جانتے ہو کہ اگر وہ (بالفرض) تم میں سے بعض کے لئے نماز پڑھے، کیونکہ وہ اسے حقیر سمجھتا ہے، تو یہ اسے قبول نہ کرتا، یقیناً اللہ عزوجل صرف اچھے کو قبول کرتا ہے، تو کیسے اس چیز کو قبول کرے جسے حقیر سمجھا گیا ہے"۔
قرآن اور روایات کی رو سے نماز نہ پڑھنے اور نماز پڑھنے کے باوجود اسے حقیر سمجھنے کی شدید مذمت کی گئی ہے اور ان کے لئے مختلف عذاب بتائے گئے ہیں۔
جو آدمی نماز کو حقیر سمجھتا ہے دنیا میں مختلف طرح کی مشکلات اور آخرت میں طرح طرح کے عذابوں کا سامنا کرے گا۔
نماز کو حقیر سمجھنے کے برے اثرات اور نقصانات:
- پروردگار کی توہین۔
- دین کے ستون کو مضبوط نہ رکھنا۔
- قرآن اور روایات میں نماز کی تاکید کو نظرانداز کرنا (دین کا ستون، مومن کی معراج وغیرہ)۔
- نماز کے دنیاوی اور اخروی فائدوں سے محروم رہنا۔
- گناہوں سے دوری نہ کرپانا (کیونکہ نماز فحشا اور منکر سے روکتی ہے)۔
- دیگر اعمال کا قبول نہ ہونا (کیونکہ اگر نماز قبول ہوگئی تو دوسرے اعمال بھی قبول ہوجائیں گے اور اگر نماز رد ہوگئی تو دوسرے اعمال بھی رد ہوجائیں گے)۔
- دنیا و آخرت میں عذاب الہی میں مبتلا ہونا (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ۱۵ عذاب بتائے ہیں کہ نماز کو حقیر سمجھنے والا دنیا اور آخرت میں ان عذابوں سے دوچار ہوگا)۔
- اور کئی دیگر نقصانات.
نتیجہ: نماز جو دین کا ستون ہے اسے حقیر نہیں سمجھنا چاہیے، اہل بیت (علیہیم السلام) نے نماز کو حقیر سمجھنے کی شدید مذمت کی ہے۔ قرآن اور روایات میں اس کے مختلف عذاب بیان ہوئے ہیں کہ اگر آدمی نماز کو حقیر سمجھے گا تو دنیا و آخرت میں ان عذابوں سے سامنا کرے گا۔ جس نے دین کے ستون کو اتنا حقیر سمجھ لیا، اس کا دین کتنا کمزور ہوگا؟!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] وسائل الشّيعة: ج 4، ص 23، ح 4413۔
[2] سورہ ماعون، آیات 4 ، 5۔
[3] الماعون : 4 و 5 ۔ جامع الأخبار : 185/455۔
[4] جامع الأخبار : 185/455۔
[5] كافی، ج3، ص269۔
[6] المحاسن، ج1، ص82۔
[7] فلاحالسائل، ص22۔
[8] عیون أخبارالرضا، ج2، ص31۔
[9] میزان الحکمہ، ج5، ص588۔
[10] میزان الحکمہ، ج5، ص588۔
[11] ثواب الأعمال : 275/1۔
[12] الكافي : 3/269/9۔
Add new comment