خلاصہ: إنّی تارکٌ فیکُمُ الثَّقَلَین، ما إن تَمَسَّکتُم بهما لَن تَضلّوا: کتابَ اللّه وَ عترَتی أهلَ بَیتی، فَإنَّهُما لَن یفتَرقا حَتّی یردا عَلَی الحَوضَ(مختصر بصائر الدرجات، ص ۹۰؛ بحار الأنوار، ج ۲۳، ص ۱۴۰، ح ۹۱.)
حدیث ثقلین ہمارے لیے ولایت اہل بیت علیھم السلام کی ایک بہت بڑی دلیل ہے اور یہ ایک ایسی دلیل ہے کہ جو فقط شیعہ مؤرخین نہیں بلکہ اہل تسنن نے بھی اپنی اکثر کتب میں اسے ذکر کیا ہے۔
سب سے پہلے ہم ولایت اور مولی کے معنی کو سمجھیں، اس کے بعد آگے بڑھیں گے: علمائے لغت نے ایک طرف تو لفظ مولی کے معنی ”سید“ بیان کیے ہیں اور دوسری طرف لفظ مولی کے معنی امیر اور سلطان ذکر کیے ہیں اور تیسری طرف اجماع ہے کہ ولی اور مولی کے ایک ہی معنی ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک امر اولویت سے جدا نہیں ہیں کیونکہ امیر کو معاشرہ میں نظم وضبط قایم کرنے، افراد کی تربیت کے طریقوں کوجاری کرنے اورایک دوسرے پر تجاوز کرنے سے منع کرنے کے اعتبار سے لوگوں پر اولویت حاصل ہے۔
اسی طرح سید(سردار) کو بھی اپنے ماتحت افراد کے کاموں میں اولویت حاصل ہوتی ہے اور ان دونوں چیزوں (امارت اور سیادت) کا دایرہ وسعت کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے، مثلا ولایت شہر کا دایرہ کسی ادارہ کی ریاست سے وسیع ہے اور ضلعوں کی ولایت کا دایرہ، شہر کی مسئولیت کے اعتبار سے وسیع ہے اور ان سب سے وسیع دایرہ سلطان اور بادشاہ کا ہے اور ان سب سے وسیع دایرہ پیغمبر کی ولایت کا ہے جو تمام دنیا کے لیے مبعوث ہویے ہیں اور خلیفہ کی ولایت کا دایرہ بھی وسیع ہے جو امور کی تدبیر اور دین کے شعایر کی مدد کرنے میں انبیاء کا جانشین ہوتا ہے۔[1]
اہل تشیع کا نظریہ یہ ہے کہ "ولّى اللَّه" کی پہچان واجب ہے بلکہ یوں کہیں کہ خداوند متعال کی ذات پر ایمان ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم ولی کی معرفت حاصل کریں اور قرآن نے اسے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ ولی کی معرفت یعنی توحید کی معرفت ہے۔ سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۳ نے اسے اور بھی واضح بیان کیا ہے اور اسی طرح سورہ نساء کی آیت نمبر ۵۹ میں ولی کی اطاعت کا حکم آیا ہے اور یوں کہا ہے کہ ولی کی اطاعت یعنی خدا کی اطاعت ہے۔ [2] اگر ہم روایات کی طرف توجہ کریں تو رسول گرامی اسلام نے بھی ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل نہ کی اور اسی حالت میں اسے موت نے آگھیرا تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔ [3] ولی کی معرفت حاصل کرنے کی تاکید اور ولی کی اطاعت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ولی کے بغیر ہمارا کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہے اور روایات بھی اسی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔[4]
امام رضا (علیہ السلام) کی مشھور و معروف روایت جسے سلسلۃ الذھب کہا جاتا ہے اس میں فرمایا: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ حِصْنِی فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا"؛ [5] امام علیہ السلام نے واضح الفاظ میں بتایا کہ ہماری ولایت شرط ہے اور یہی وہ چیز ہے کہ جو تمہیں عذاب سے بچائے گی ۔اور اسی طرح امام باقر (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں : "اسلام کے پانچ ستون ہیں :نماز ،روزہ ،زکات،حج ،ولایت ،اور ان چار میں سے کوئی بھی رکن ولایت کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا یعنی اسلام کا محکم ترین رکن ولایت ہے۔ [6]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات
[1] فیروزآبادى، القاموس المحیط ؛ سعیدى مهر، محمد، کلام اسلامى، ج 2، ص 168.
[2] علامه مجلسى، بحار الأنوار، ج 23، ص 108، مؤسسة الوفاء بیروت - لبنان، 1404ق.
[3] بحار الانوار، ج 23،ص 108.
[4] برگرفته از سوال 153.
[5] بحارالأنوار، ج 3، ص 7.
[6] بحار، ج 65، ص 333 - 329 .
Add new comment