خلاصہ:غدیر ایک ایسی حقیقت ہے جس کی جانب ہر کسی نے اشارہ کیا ہے، جن میں سب سے اہم شخصیت حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا) کی ہے، جنھوں نے مختلف مقامات پر غدیر کو بیان کیا ہے اور اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا ہے، اس مضمون میں ان ہی مقامات میں سے ایک مقام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عید غدیر، عیدوں میں سب سے بڑی عید ہے، یہ عید محروموں کی عید ہے، یہ عید مظلوموں کی عید ہے، یہ عید ایسی عید ہے کہ جس دن خدا تبارک و تعالیٰ نے رسول اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کے ذریعہ الٰھی مقاصد کے اجراء اور راہ انبیاء کے استمرار کے لئے حضرت علی(علیہ السلام) کو اپنا جانشین مقرر فرمایا، یہ وہ عید ہے جس کے بار ے میں امام جعفر صادق(علیہ السلام) ارشاد فرمارہے ہیں: «وَ إِنَ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍ بَيْنَ الْفِطَرِ وَ الْأَضْحَى وَ الْجُمُعَةِ كَالْقَمَرِ بَيْنَ الْكَوَاكِب[۱] یقینا عید فطر، عید قربان اور جمعہ کی عید کے درمیان، غدیر کا دن ستاروں میں چاند کی طرح ہے»۔
لیکن افسوس ہے کہ اس دن کو جس طرح منانے کا حق ہے اس طرح منایا نہیں جاتا، یہ وہ دن ہے جس کے بارے میں حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ اعلیہا) گریہ کررہی ہیں۔
راوی کہتا ہے: رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی وفات کے بعد شھزادی زہرا(سلام اللہ علیہا) جناب حمزہ کی قبر مبارک پر زیارت کے لئے جایا کرتی تھیں، اور و ہاں پر گریہ کرتی تھیں۔ محمود ابن لبید کہتے ہیں کہ ایک دن میں بھی وہاں موجود تھا میں نے کیا دیکھا کہ فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا) گریہ کر رہی ہیں، کچھ دیر بعد میں شھزادی کہ قریب گیا اور سلام کے بعد میں نے عرض کیا: شھزای آپ کے گریہ سے میرا دل بہت زیادہ منقلب ہوگیا ہے، شھزادی نے فرمایا: اے محمود، کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ میں اللہ کے رسول، اپنے بابا کی جدائی میں آنسو بہاؤ۔
میں نے شھزادی سے عرض کیا کہ میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں جو مجھے بہت بے چین کر رہا ہاے، شھزادی نے فرمایا: پوچھو، میں نے عرض کیا: کیا رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(علیہ السلام) کی امامت کے بارے میں صراحت کے ساتھ بیان نہیں کیا تھا؟
شھزادی نے فرمایا: کیا تم لوگوں نے غدیر کے دن کو بھلا دیا۔
میں نے عرض کیا: ہاں اللہ کے رسول نے صریح کہا تھا، لیکن میں یہ چاہتا ہوں جو چیزیں اللہ کے رسول نے لوگوں سے نہیں فرمایا اور آپ سے کہا ہے ان چیزوں کو سنوں۔
شھزادی نے فرمایا: میں خدا کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میں نے اللہ کے رسول سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: علی(علیہ السلام) میرے بعد تم لوگوں میں سب سے بہتر ہیں جس کو میں تم لوگوں کے درمیان چھوڑ کر جارہا ہوں، اور وہ میرے جانشین اور امام ہیں، اور میرے نواسے اور حسین(علیہ السلام) کی صلب سے ۹، فرزند جو ان کے بعد امام ہونگے اگر ان لوگوں کی اطاعت کروگے تو صحیح راستہ کو اپناؤگے اور اگر ان کی مخالفت کی تو قیامت کے دن تک تم لوگوں ک درمیان اختلاف رہیگا۔
میں نے عرض کیا کہ: پھر حضرت علی(علیہ السلام) نے اپنا حق کیوں نہیں لیا؟
شھزادی نے فرمایا: اے محمود، اللہ کے رسول نے فرمایا ہے کہ امام، کعبہ کی مانند ہے، لوگ کعبہ کی طرف جاتے ہیں کعبہ لوگوں کی طرف نہیں آتا، اس کے بعد شھزادی نے فرمایا: خدا کی قسم اگر حق اس کے حقدار کو دیدیا جاتا اور اللہ کے رسول کے عترت کی پیروی کرتے، تو کبھی دو لوگوں کے درمیان خدا کے بارے میں اختلاف پیش نہیں آتا، تمام امام ایک کے بعد ایک امامت کو وراثت میں پاتے یہاں تک کے حسین(علیہ السلام) کے نویں فرزند حضرت حجت ابن الحسن(عجل للہ تعالی فرجہ الشریف) کی حکومت برپا ہوتی۔[۲]۔
غدیر کو فراموش کرنے کے نتائج:
۱۔ دین کا کامل نہ ہونا۔
۲۔ نعمت کا تمام نہ ہونا۔
۳۔ ولایت سے محرومیت۔
۴۔ معصوم امام کی مخالفت۔
۵۔ مسلمانوں کو ہدایت نہ پانا۔
نتیجہ:
آج بھی جہان اسلام کی تمام پریشانیاں، غدیر کو بھلانے اور اللہ کے ولی کی اطاعت نہ کرنے کی بناء ہر ہیں، اسی لئے ہم کو یہ کوشش کرنی چاہئے کے ہم غدیر کو معصومین(علیہم السلام) کے احادیث کے مطابق سب سے بڑی عید کی طرح منائیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو اس عظیم ولایت کی نعمت سے محروم نہ رکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ محمد باقر بن محمد تقى مجلسى، بحار الانوار، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ق، ج۹۵، ص۳۲۳.
[۲]۔ گذشتہ حوالہ: ج۳۶، ص۳۵۲۔
Add new comment