حضرت فاطمہ زہراؑ، امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کی روشنی میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) نے جو شام میں خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا "سَيِّدَةُ نِساءِ العالَمينَ فاطِمَةُ البَتولُ" کا تذکرہ فرمایا، اس مضمون میں ان تین القاب اور نام کی تشریح کی جارہی ہے۔

حضرت فاطمہ زہراؑ، امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں یزید اور شامیوں کے سامنے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں فرمایا: "أيُّهَا النّاسُ، اُعطينا سِتًّا، وفُضِّلنا بِسَبعٍ: اُعطينَا وفُضِّلنا بِأَنَّ مِنَّا النَّبِيَّ المُختارَ مُحَمَّدًا صلی الله عليه و آله وَ مِنَّا الصِّدِّیقُ وَ مِنَّا الطَّیَّارُ وَ مِنَّا أَسَدُ اللَّهِ وَ أَسَدُ رَسُولِهِ ومِنّا سَيِّدَةُ نِساءِ العالَمينَ فاطِمَةُ البَتولُ[1]"، "اے لوگو! ہمیں چھ چیزیں عطا ہوئی ہیں اور ہمیں سات چیزوں کے ذریعے فضیلت دی گئی ہے، ہم اہل بیتؑ کو عطا ہوا ہے...، اور ہم اہل بیتؑ کو فضیلت دی گئی اس ذریعہ سے کہ نبی مختار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ ہم میں سے ہیں اور صدّیق (امیرالمومنینؑ) ہم میں سے ہیں اور طیارؑ اور اللہ کا شیر اور اس کے رسول کا شیر (حمزہؑ) ہم میں سے ہیں اور عالمین کی عورتوں کی سردار فاطمہؑ بتول ہم میں سے ہیں"۔
اس مضمون میں حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کے پیش نظر، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی جناب فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے نام اور القاب سیدۃ نساءالعالمین، فاطمہ اور بتول کی تشریح بیان کی جارہی ہے۔
سیدۃ نساء العالمین: اہلسنت کے علماء نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "يا فاطمة ألا ترضين أن تكوني سيّدة نساء العالمين وسيّدة نساء هذه الأُمّة وسيّدة نساء المؤمنين"[2]، "اے فاطمہؑ کیا آپ خوش نہیں ہوتیں کہ آپ عالمین کی عورتوں کی سردار اور اس امت کی عورتوں کی سردار اور مومنین کی عورتوں کی سردار ہوں".
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نے بھی آپؑ کی مزار پر جو کلمات فرمائے، وہاں پر لقب سیدۃ نساء العالمین کا ذکر کیا ہے۔[3] نیز یہ لقب آپؑ کےلئے بعض زیارتناموں میں بھی ذکر ہوا ہے، جیسے زیارت وارث، زیارت عاشورا، زیارت حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا)، زیارت امام رضا (علیہ السلام) اور زیارت حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا)۔
اہل سنت کے بعض بزرگ علماء جیسے سبکی (حلبیات میں)، سیوطی، نسائی، ابی داود، قاضی قطب الدین وغیرہ کے نقل کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) چند دلائل کی بنیاد پر دنیا کی سب عورتوں سے افضل ہیں، منجملہ ان دلائل کی بنیاد پر:
۱۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روایت: "فاطمة بضعة منی"، "فاطمہؑ میرا ٹکڑا ہیں"۔
2. پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو ارشاد: "أما ترضین أن تکونی ... سیدة نساء المؤمنین"، "کیا آپ خوش نہیں ہوتیں ... کہ مومنین کی عورتوں کی سردار ہوں".
3. اس روایت کا غیرمستند اور ضعیف ہونا کہ "صحابہ میں سب سے افضل، پیغمبرؐ کی زوجات ہیں".[4]
علامہ شیخ محمد فاضل مسعودی نے الاسرارالفاطمیہ میں علامہ اہلسنت ابن عبدالبر سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "يا بنيّة ، ألا ترضين أنّك سيدّة نساء العالمين ؟ قالت : يا أبت فأين مريم ؟ قال : تلك سيدّة نساء عالمها"[5]، "میری بیٹی! کیا آپ خوش نہیں ہیں کہ آپ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں؟ جناب سیدہؑ نے عرض کیا: بابا جان! تو مریم کا مقام کیا ہے؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: مریم، اپنے وقت کی عورتوں کی سردار ہیں"۔
نیز موصوف تحریر فرماتے ہیں کہ مندرجہ ذیل روایت کو طبرانی نے شیخین (بخاری اور مسلم) کے شرائط کے مطابق نقل کیا ہے کہ عائشہ کہتی ہیں: "ما رأيت أحداً قطّ أفضل من فاطمة غير أبيها"[6]، "میں نے اب تک کسی کو فاطمہؑ سے افضل نہیں دیکھا سوائے ان کے باپ کے".
ابن عباس سے نقل ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا: یا رسول اللہؐ! کیا جناب فاطمہؑ اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار ہیں؟ تو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "ذاك لمريم بنت عمران ، فأمّا ابنتي فاطمة ، فهي سيدة نساء العالمين من الأولين والآخرين ..."[7]، یہ (مقام) مریمؑ بنت عمران کے لئے ہے اور میری بیٹی فاطمہؑ، عالمین کی اولین و آخرین عورتوں کی سردار ہیں۔
ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپؐ نے فرمایا: "أفضل نساء أهل الجنة : مريم بنت عمران ، وفاطمة بنت محمد ، وخديجة بنت خويلد ، وآسية بنت مزاحم امرأة فرعون"[8]، "جنتی عورتوں میں سے افضل مریمؑ بنت عمران اور فاطمہؑ بنت محمد اور خدیجہؑ بنت خویلد اور فرعون کی زوجہ آسیہؑ بنت مزاحم ہیں"۔
فاطمہ: فاطمہ، "فطم" سے ہے جس کے معنی جدا ہونے کے ہیں۔[9] اور آپؑ کا اسم "فاطمہ" اللہ تعالی نے اپنے نام سے مشتق کیا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپؑ سے فرمایا: "و شق لک یافاطمة اسما من اسمائه فهوالفاطر و انت فاطمة"[10]، "اور اللہ نے آپ کے لئے اے فاطمہؑ اپنے ناموں میں سے ایک اسم مشتق کیا، وہ فاطر ہے اور آپ فاطمہؑ ہیں"۔
روایات میں آپؑ کے اس مبارک نام کی دیگر وجوہات بھی ذکر ہوئی ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں:
۱۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا: کیا آپ جانتے ہیں کہ فاطمہؑ کا نام فاطمہ کیوں رکھا گیا؟ حضرت علی (علیہ السلام) نے عرض کیا: فاطمہؑ کا نام فاطمہ کیوں رکھا گیا یا رسول اللہؐ؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: "لانها فطمت هی و شیعتها من النار"[11]، "کیونکہ وہ اور ان کے شیعہ (جہنم کی) آگ سے امان میں ہیں".
2. حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "و انما سمیت فاطمة لان الخلق فطموا عن معرفتها"[12]، "بیشک ان کا نام اس لیے فاطمہ رکھا گیا کہ مخلوق ان کی معرفت سے دور ہے".
بتول: بتول، حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے القاب میں سے ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ عورت جسکے لیئے دیگر عورتوں کی طرح نجاست کے ایام نہ آتے ہوں (جیسے حیض اور نفاس) اور وہ ہر طرح سے پاک رہتی ہو۔ آپؑ کے بتول کہلانے کی وجہ کے بارے میں کئی اقوال بتائے گئے ہیں، جیسے:
۱۔ آپؑ اپنے زمانے کی عورتوں سے اعمال، کردار اور معرفت کے لحاظ سے جدا اور افضل تھیں اور انقطاع الی اللہ کی کیفیت پر پہنچی ہوئی تھیں۔[13]
۲۔ بہت ساری روایات کے مطابق، حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو اس لیے بتول کہا گیا ہے کہ آپؑ حیض اور نفاس سے پاک تھیں۔[14] نیز علامہ اہلسنت، شیخ سلیمان قندوزی حنفی کا کہنا ہے کہ "انما سمیت فاطمه البتول لانها بتلت من الحیض و النفاس"[15]، "فاطمہؑ کو اس لیے بتول کہا گیا کہ آپؑ حیض اور نفاس سے دور تھیں"۔
نتیجہ: حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں خطبہ دیتے ہوئے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے یہ اوصاف بیان فرمائے: "سیدۃ نساء العالمین"، آپؑ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں، "فاطمہ" کے ایک معنی کے معنی کے مطابق خود اور آپؑ کے شیعہ جہنم کی آگ سے دور ہیں اور "بتول" وہ باعظمت شخصیت ہیں جن پر نجاست کی وہ حالتیں طاری نہیں ہوتیں جو دیگر عورتوں پر ہوتی ہیں۔ لہذا یہ عظیم الشان خاتون اتنی بلند مقام کی حامل ہیں کہ امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ میں ان کا شمار ان سات چیزوں میں ہے جن کے ذریعہ اہل بیت (علیہم السلام) کو فضیلت دی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] الصّحيح من مقتل سيّد الشّهداء و أصحابه عليهم السّلام ، ری شہری، ج1، ص1132، بنقل از مقتل خوارزمی، ج2، ص69۔
[2] المستدرک علی الصحیحین: 170/3 ح 4740؛ صحیح مسلم: 57/5 ذیل ح 99؛ أسد الغابة: 223/7 رقم 7175. به نقل از منتخب فضائل النبی و اهل بیته علیهم السلام من الصحاح الستة و غیرهما من الکتب المعتبرة عند اهل السنة، ص265.
[3] الکافی، ج 1، ص 381-382۔
[4] اس بحث کے سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے رجوع کیجیے: محمد راجی کناس، حیاة نساء اهل البیت، ص660 – 663۔
[5] الأسرار الفاطميّة، ج1، ص225۔
[6] الأسرار الفاطميّة، ج1، ص225، بنقل از السيرة الحلبيّة » : 2 / 6.
[7] معاني الأخبار : ج1، ص107۔
[8] البداية والنهاية 2 : 55. والمعجم الكبير 22 : 407 / 1019. ومسند أحمد 1 : 293 و 316 و 322. ومستدرك الحاكم 2 : 497۔
[9] ابن منظور، لسان العرب، ج 12، ص 454۔
[10] معانی الاخبار، ص 55۔
[11] بحارالانوار، ج 43، ص 211۔ ذخائر العقبی، ص 26، ینابیع المودة، ص 194.
[12] بحارالانوار، ج 43، ص 65.
[13] مازنذرانی، شرح اصول کافی، ج5، ص228؛ مجمع البحرین، ج5، ص316؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج25، ص179۔
[14] مجلسی، بحارالانوار، ج43، ص16۔ شیخ طوسی، امالی، ص44؛ مجمع البحرین، ج5، ص316؛ طبری، دلائل الامامه، ص54؛ اربلی، کشف الغمه، ج1، ص464؛ صدوق، معانی الاخبار، ص64؛ محلاتی، ریاحین الشریعه، ج1، ص18۔
[15] قندوزی، ینابیع الموده، ج2، ص322۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 56