خلاصہ: کسی کا تعارف وہی کروا سکتا ہے جو خود پہلے پہچانتا ہو، اہل بیت (علیہم السلام) وہ ہستیاں ہیں جو اللہ کی معرفت کی بلندی پر فائز ہیں، لہذا بہترین طریقہ سے وہی، لوگوں کو اللہ کی معرفت دلواسکتے ہیں جن میں سے ایک حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) ہیں، آپ (علیہ السلام) نے لفظ اللہ کی تفسیر کرتے ہوئے اللہ کی معرفت کا ذریعہ عطا کیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مختلف مذاہب کے راہنماوں نے اپنے پیروکاروں کو "اللہ" کا مختلف انداز میں تعارف کروایا ہے، بلکہ ہر راہنما نے جو اس کے تصور اور تخیل نے سمجھا ہے یا اس نے اپنی ہوائے نفس اور ذاتی اغراض کے مطابق "اللہ" کی تعریف کی ہے۔ مگر انبیاء (علیہم السلام) اور اہل بیت عصمت و طہارت (علیہم السلام) ہی ہیں جنہوں نے اللہ کی معرفت حاصل کرتے ہوئے لوگوں کو صحیح طریقہ سے مالک کائنات کا تعارف کروایا ہے اور ان حضرات کے نقش قدم پر چلنے والوں نے ہی "اللہ" کی درست معرفت کروائی ہے۔ اہل بیت (علیہم السلام) وہ عظیم توحید شناس ہستیاں ہیں جو مختلف مذاہب کے دعویداروں کے اعتقادی تنازعات اور فکری کشمکش سے سامنا کرتے ہوئے اگر لوگوں کو توحید شناسی اور معرفت الہی کی تعلیم نہ دیں تو ایسے اعتقادی نازک حالات میں اللہ تعالی کو کوئی نہیں پہچان سکتا اور سب لوگ گمراہی میں غوطہ زن رہیں گے بلکہ قلیل تعداد جو حق پر گامزن رہی ہو وہ بھی ایسی اعتقادی کھینچ تان میں شک و شبہ کا شکار ہوتے ہوئے شرک و کفر کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ لہذا ایسے مقام پر واضح ہوجاتا ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) کا وجود عالم انسانیت کے لئے کتنا ضروری ہے کہ ان کے بغیر نہ معرفت الہی ممکن ہے اور نہ اللہ کی طرف ہدایت پاکر مقامِ قربِ پروردگار تک پہنچنے کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ اس مضمون میں ہم "اللہ" کی معرفت، حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی حدیث کی روشنی میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام)، لفظ"اللہ" کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "هُوَ الَّذي يَتَأَلَّهُ إلَيهِ عِندَ الحَوائِجِ وَالشَّدائِدِ كُلُّ مَخلوقٍ عِندَ انقِطاعِ الرَّجاءِ مِن كُلِّ مَن هُوَ دونَهُ ، وتَقَطُّعِ الأَسبابِ مِن جَميعِ ما سِواهُ ، يَقولُ : بِسمِ اللّهِ؛ أي أستَعينُ عَلى اُموري كُلِّها بِاللّهِ الَّذي لا تَحِقُّ العِبادَةُ إلّا لَهُ، المُغيثِ إذَا استُغيثَ، وَالمُجيبِ إذا دُعِيَ[1]"، "وہ، وہ ہے کہ ہر مخلوق حاجات اور مشکلات کے وقت جب اس کی امید ہر اس چیز سے جو اللہ کے علاوہ ہے، سے ختم ہوجائے اور اللہ کے علاوہ سب اسباب ختم ہوجائیں، تو اس کی طرف توجہ اور خضوع کرتی ہے، کہتا ہے بسم اللہ، یعنی میں اپنے سب کاموں میں اس اللہ سے مدد مانگتا ہوں جس کے علاوہ کوئی عبادت کا حقدار نہیں، وہی جو فریاد رسی کرنے والا ہے، جب اس کی طرف فریاد کی جائے اور جواب دینے والا ہے جب اسے پکارا جائے"۔ اب ہم حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی اس توحیدشناسی کی حدیث کو قرآن اور دیگر روایات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا:
"يَتَأَلَّهُ": یہ لفظ "اَلِهَ"سے ماخوذ ہے۔ لفظ "اَلِهَ" کے کئی معانی بتائے گئے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں کہ "الہ" یعنی وہ جو سب کا ملجا اور پناہ گاہ ہے۔[2] تضرع کرنا[3] (گڑگڑانا)، اور بعض نےلکھا ہے کہ "تأله" تفعل کے صیغہ سے الاہ سے ماخوذ ہے اور تعبد، عبودیت اور خضوع کے معنی میں ہے اور تفعل کا صیغہ اخذ (لینے) اور اختیار کی نشاندہی کرتا ہے۔[4]
"عِندَ الحَوائِجِ وَالشَّدائِدِ كُلُّ مَخلوقٍ": انسان کا وجود ایسا ہے جو طرح طرح کی حاجتوں کو پورا کرنے کی کوشش میں رہتا ہے اور کیونکہ خود ناتوان ہے تو مختلف مشکلات کا شکار ہوتا رہتا ہے۔ نہ اپنی حاجتوں کو خود پورا کرسکتا ہے اور نہ مشکلات کو اپنے سے دور کرسکتا ہے، اسی لیے کسی دوسرے کی مدد اور پشت پناہی تلاش کرتا ہے اور کیونکہ سب لوگ ایک دوسرے کی طرح کسی دوسرے کے محتاج ہیں تو کوئی کسی کی مشکل کو حل نہیں کرسکتا، صرف وہی سب مشکلات کو حل کرسکتا ہے جو خود کسی کا محتاج نہ ہو اور وہ، اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی نہیں ہے، لہذا صرف اللہ ہی ہے جو حاجات کو پورا اور مشکلات کو برطرف کرسکتا ہے۔ ـعِندَ انقِطاعِ الرَّجاءِ مِن كُلِّ مَن هُوَ دونَهُ، وتَقَطُّعِ الأَسبابِ مِن جَميعِ ما سِواهُ": عام حالات میں اور عادی زندگی میں انسان کے لئے کیونکہ اللہ کی طرف سے اسباب فراہم رہتے ہیں اور خاص کوشش کیے بغیر یا تھوڑی بہت محنت سے اس کے مسائل حل ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے مطلوب تک پہنچ جاتا ہے تو انہی اسباب کا سہارا لیتے ہوئے اللہ تعالی سے غافل ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں ہوں اور یہ چیزیں، میں اور یہ چیزیں مل کر ان مسائل کو حل کررہے ہیں، دوسرے لفظوں میں، اپنی توانائیوں اور اپنے پاس موجودہ چیزوں کو ہی حقیقی فاعل سمجھ لیتا ہے تو یا اپنی تعریفیں کرتا ہے کہ میں نے یہ کام کیا، میں نے فلاں شخص کا مسئلہ حل کیا، اگر میں نہ ہوتا تو اس کی مشکل برطرف نہیں ہوسکتی تھی، یا کہنے لگتا ہے کہ فلاں شخص نے یا فلان چیز نے میرا مسئلہ حل کردیا، اگر وہ نہ ہوتا یا یہ پیسہ نہ ہوتا تو یہ مسئلہ حل نہیں ہونا تھا۔ یہاں تک کہ کسی شخص کی طاقت کو اتنا مضبوط سمجھ لیتا ہے کہ کہنے لگتا ہے کہ بس وہی شخص یہ کام کرسکتا ہے، اگر اس نے نہ کیا تو یہ کام ہرگز نہیں ہوگا تو ایسی سوچوں اور تخیلاتی سہاروں کو سہارا سمجھ کر پریشانی میں دن رات گزار دیتا ہے، اگر کام ہوگیا تو تعریفیں اسی شخص کی کرے گا جس سے کام کروایا اور ساتھ زبانی طور پر اللہ کا بھی شکر کردے گا، لیکن جتنا اس شخص کا شکرگزار اور دل کی اتھاہ گہرائی سے شکریہ ادا کرے گا، اس کا عشر عشیر بھی اللہ کا شکریہ ادا نہیں کرے گا، لیکن اگر اس کی مشکل بنیادی مشکل ہو اور حل نہ ہورہی ہو، ہر طرح کی کوشش اور جدو جہد کرنے کے باوجود اسے ناکامی کا سامنا ہورہا ہو، ہر چیز سے امید ختم ہو جائے اور اسباب و ذرائع بھی بند نظر آنے لگیں تو تب اللہ کے دروازے پر دستک دے گا اور بارگاہ الہی میں گڑگڑائے گا، کیونکہ اللہ تعالی کو وہ واحد ذات سمجھ رہا ہے جو اس کی مشکل کو حل کرسکتی ہے، ایسی حالت کیوں پیدا ہوئی؟ کیونکہ اب مضطر اور ناچار ہوگیا ہے اور سمجھ گیا ہے کہ اللہ کے سوا سب لوگ، سب مخلوقات اور سب ممکنہ ذرائع عاجز ہیں اور اگر کسی چیز یا کسی شخص کے ذریعہ کوئی مسئلہ حل ہوتا ہے تو اس چیز یا شخص کی حیثیت صرف وسیلہ اور ذریعہ کی حد تک ہے، یعنی اگر اللہ تعالی اس شخص یا چیز میں یہ طاقت پیدا کرے گا اور اسے اذن دے گا تو اس کے ذریعہ اس آدمی کا مسئلہ حل ہوجائے گا ورنہ نہیں ہوگا، اور جب اللہ ایسا ارادہ کرتا ہے تب بھی خود اللہ ہے جو مشکل کو حل کررہا ہے مگر مصلحت اور حکمت کی بنیاد پر کسی چیز کو ذریعہ بنا کر مسئلہ حل کررہا ہے۔ یعنی اللہ کے علاوہ جو چیز جو کردار ادا کرے وہ صرف وسیلہ کی حد تک ہے! بنابریں ایسے حالات میں انسان صرف اللہ کے سامنے گڑگڑاتا ہے اور اس کی طرف توجہ اور خضوع کرتا ہے۔ قرآن کریم کی کئی آیات یہ بات واضح کررہی ہیں کہ انسان جب مضطر اور ناچار ہوجاتا ہے تو خالص طور پر اللہ کو پکارتا ہے، مگر جب خدا اسے نجات دے دیتا ہے تو دوبارہ اپنے پرانے شرک پر پلٹ جاتا ہے۔ اسی بات کو تو سمجھنا ضروری ہے اور توحید شناسی کی بنیاد ہے کہ جو چیزیں اضطرار کے وقت کچھ مدد نہیں کرپائیں وہ آرام و سکون کی حالت میں بھی کچھ مدد نہیں کرسکتیں۔ ان دو حالتوں میں فرق صرف یہی ہے کہ معمولی حالات میں اللہ تعالی نے اسباب فراہم کردیئے تھے اور اضطرار کی حالت میں اسباب کو درمیان سے ہٹا دیا، یعنی اسباب کو ہٹایا تو اضطرار کی کیفیت بن گئی، اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر لمحہ اللہ کی بارگاہ میں مضطر ہے، مگر جب انسان کا امتحان لیا جارہا ہے تو امتحان کا تقاضا یہ ہے کہ اسباب کو فراہم کیا جائے تاکہ دیکھا جائے کہ انسان اسباب پر بھروسہ کرلیتا ہے یا سوچتا ہے کہ سب کچھ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے، فی الحال اس چیز کو اللہ نے وسیلہ بنایا ہے تو کل کسی چیز کو بھی وسیلہ بنا سکتا ہے، لہذا نہ اِس وسیلہ کے آنے سے خوشی ہے نہ جانے سے پریشانی۔ ساری امید صرف اللہ پر ہے اور یہ اسباب بھی مالک کائنات کے محتاج ہیں، چاہے اپنے وجود کے لحاظ سے یا چیزوں میں اثرورسوخ ڈالنے کے لحاظ سے۔ "يَقولُ : بِسمِ اللّهِ ؛ أي أستَعينُ عَلى اُموري كُلِّها بِاللّهِ": لفظ "یقول" کا تعلق لفظ "يتألّه "سے ہے[5]، یعنی خضوع اور گڑگڑاتے ہوئے کہتا ہے: بسم اللہ، اور بسم اللہ کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے سب امور اور کاموں میں اللہ سے مدد مانگتا ہوں، اور اللہ کے علاوہ کوئی فائدہ پہنچانے والا اور نقصان پہنچانے والا نہیں ہے اور کوئی طاقت اللہ کی طاقت کے علاوہ نہیں پائی جاتی۔[6] البتہ واضح رہے کہ وسیلہ تلاش کرنے کا بھی حکم اللہ نے ہی دے رکھا ہے، لیکن مذکورہ بحث کا مقصد یہ ہے کہ ہر کام میں اصل عمل دخل اللہ کا ہے، باقی جو کچھ ہے وہ وسیلہ ہے جو اللہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ "الَّذي لا تَحِقُّ العِبادَةُ إلّا لَهُ": اللہ وہ ذات ہے جس کے علاوہ کوئی عبادت کا حقدار نہیں ہے۔سورہ حمد جسے دن رات ہر مسلمان نماز میں پڑھتا ہے، اس میں کہتا ہے: " إِیاک نَعْبُدُ وَ إِیاک نَسْتَعینُ [7]"، " پروردگار! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں" بنابریں کیونکہ عبادت صرف اللہ کی کرنا چاہیے تو اس کو توحید عبادی کہا جاتا ہے۔
"المُغيثِ إذَا استُغيثَ، وَالمُجيبِ إذا دُعِيَ" جب اللہ کے علاوہ کوئی مددگار ہی نہیں مگر اللہ کے اذن سے تو جب انسان اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرتا ہے اور اسے پکارتا ہے تو صرف اللہ ہی ہے جو اس کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی پکار کا جواب دیتا ہے۔
نتیجہ: امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی اس حدیث سے انسان کی فطری توحید کی پہچان ہوتی ہے۔ توحید کا تعلق ہر انسان کی فطرت سے ہے، مگر جب درمیان میں انسان کے اپنے بنائے ہوئے پردے لٹک جاتے ہیں تو وہ اسے اس فطری توحید سے غافل کردیتے ہیں اور جب اضطرار اور ناچاری کا وقت آجاتا ہے تو انسان اس بات کا صحیح طرح سے ادراک کرلیتا ہے کہ اس ذات کے علاوہ کوئی مددگار نہیں ہے، لہذا کمال تو یہ ہے کہ انسان اختیار اور اسباب کی فراہمی کے وقت بھی اسی طرح اللہ سے مانگے، اللہ کو پکارے اور اللہ کو مددگار سمجھے جس طرح اختیار کے چھن جانے اور اسباب کے منقطع ہوجانے کے موقع پر پکارتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] التوحيد : ص 230 ح 5 ، معاني الأخبار : ص 4، ح 2۔
[2] لسانالعرب، ج1، ص189-190، «اله»؛ کشفالاسرار، ج1، ص432.
[3] شرح توحید صدوق ، قاضى سعيد قمى، ج3، ص295۔
[4] دانشنامه امام کاظم علیه السلام ، ج1، ص231۔
[5] شرح توحید صدوق ، قاضى سعيد قمى، ج3، ص295۔
[6] شرح توحید صدوق ، قاضى سعيد قمى، ج3، ص295 سے ماخوذ۔
[7] سورہ حمد، آیت 5۔
Add new comment