خلاصہ: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے سماج میں مشورہ کرنے کا رواج تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر بعض سنجیدہ لوگ مشورہ کرتے بھی ہیں تو مشورہ دینے والوں کی ایک قطار نظر آتی ہے، جبکہ اسلام کی تعلیمات میں ایسا نہیں ہے اسلام میں جہاں مشورہ کی اہمیت و فضیلت کی طرف اشارہ کیا ہے وہیں مشیر (مشورہ دینے والے )کی ذمہ داریوں کو بھی بیان کیا ہے تاکہ مستشیر (مشورہ لینے والا) اس کے مشورہ سے کامیابی و کامرانی کی طرف گامزن ہوسکے۔ مقالہ ھذا میں مشیر کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس امید کے ساتھ کہ ہر مشیر اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور مستشیر کو ایک مفید مشورہ سے نوازے۔
جس طرح اسلام میں مشورہ کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے اور اسکی اہمیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اسی طرح ان افراد کے بارے میں احکام موجود ہیں جن سے مشورہ کیا جاتا ہے مثلا یہ کہ خیر خواہی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ مشورہ میں خیانت کرنے کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے یہاں تک کہ یہ حکم غیر مسلموں کے لئے بھی ہے کہ وہ مشورہ طلب کریں تو ان سے کسی قسم کی خیانت نہ کی جائے اور جو صحیح رائے ہو وہی انہیں دی جائے۔
امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل شدہ ” رسالہ حقوق “ میں آپ نے فرمایا: ”وحَقُ المُستشيرِ إِنْ عَلِمتَ أنَّ لَهُ رأياً أشَرتَ عَلَيهِ، وإنْ لم تَعلَم أرشَدتَهُ إلى مَن يَعلَمُ. وَحَقُّ المُشير عَلَيكَ أنْ لا تتَّهِمَهُ فيما لا يوافِقُكَ من رَأيهِ، فَإنْ وافَقَكَ حَمِدتَ اللَّهَ عز و جل“[1] تجھ سے مشورہ کرنے والے کا حق یہ ہے کہ اگر کوئی نظریہ رکھتے ہو تو اسے بتا دو اور اگر اس کام کے بارے میں تجھے علم نہیں تو اسے ایسے شخص کی طرف رہنمائی کرو جو جانتا ہے اور مشورے دینے والے کا حق تجھ پر ہے کہ جس نظریہ میں وہ تمہارا موافق نہیں ہے اس میں اس پر تہمت تراشی نہ کرو۔
مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں مشیر کے چند فرائض بیان کئے جاسکتے ہیں:
(۱) ”إِنْ عَلِمتَ أنَّ لَهُ رأياً أشَرتَ عَلَيهِ“ غور و فکر کے بعد مشیر کا ذہن جس طرف مائل ہورہا ہے، کسی رعایت کے بغیر صاف طور پر اس کا اظہار کردے، یعنی مشیر کا ایک اہم فریضہ یہ بھی ہے کہ اسے اپنے بھائی کا حق سمجھتے ہوئے صحیح مشورہ دے، رسولِ اکرم ا نے جان بوجھ کر کسی کے معاملہ کو بگاڑنے کے لیے یا کسی کا نقصان کرانے کے لیے مشورہ دینے کو خیانت اور گناہ قرار دیا ہے ارشاد ہے : ” مَنِ استَشارَهُ أَخوهُ المُؤمِنُ فَلَم يَمحَضهُ النَّصيحَةَ سَلَبَهُ اللّه لُبَّهُ “[2]جس نے اپنے بھائی سے مشورہ کیا اور اس نے اسے کوئی ایسا مشورہ دیا جس کے علاوہ میں وہ کامیابی سمجھتا ہو تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی، اللہ ایسے مشیر کی عقل کو چھین لے گا۔ “ مشورہ دینے میں اس بات کی ہرگز پروا نہ کرے کہ اگر میں اس کو یہ مشورہ دوں گا تو شاید اس کا دل ٹوٹ جائے گا، یہ مجھ سے ناراض اور رنجیدہ ہوجائے گا۔ کیوں کہ مشورہ طلب کرنے کے بعد اس کی گنجائش نہیں رہتی کہ خوش کرنے کے لیے غلط اور خلافِ حقیقت رائے دی جائے، کسی انسان کی نہیں؛ بلکہ اللہ کی رضا مندی اور ناراضگی کا خیال رکھے اور جو مشورہ ذہن میں آئے دو ٹوک انداز میں بیان کردے۔
(۲) ”إِنْ عَلِمتَ أنَّ لَهُ رأياً أشَرتَ عَلَيهِ، وإنْ لم تَعلَم أرشَدتَهُ إلى مَن يَعلَمُ“ جس معاملہ میں اس سے مشورہ لیا جارہا ہے، اگر اس میں مکمل بصیرت ہو تو مشورہ دے، ورنہ صاف کہہ دے کہ مجھے اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے؛ اس لیے میں مشورہ کا اہل نہیں ہوں، یہ کوئی توہین اور بے عزتی کی بات نہیں؛ بلکہ اس کے اخلاص اور جذبہٴ ہمدردی کی بنیاد پر اجر وثواب کا مستحق ہوگا، مشورہ لینے والے کا بھی اعتماد بڑھ جائے گا اور اسے یقین ہوجائے گا کہ یہ میرے حق میں مخلص ہے، آج کل لوگوں کا یہ مزاج ہے کہ کچھ آئے یا نہ آئے، مشورہ لیتے وقت ضرور کچھ نہ کچھ جواب اور مشورہ دے دیتے ہیں، یہ دیانت کے خلاف ہے۔
(۳)”وَحَقُّ المُشير عَلَيكَ أنْ لا تتَّهِمَهُ فيما لا يوافِقُكَ من رَأيهِ، فَإنْ وافَقَكَ حَمِدتَ اللَّهَ عز و جل“ مشیر کا کام ہے صرف مشورہ دینا، اصرار یا رائے تھوپنے کا مزاج درست نہیں ہے، مشورہ لینے والے کا مقصد ہوتا ہے کہ مختلف جہتوں سے معاملہ کو پہچانا اور جانا جائے پھر غور و فکر کے بعد کسی ایک پہلو کو اختیار کیا جائے، ظاہر ہے کہ مشورہ طلب کرنے والا، مشورہ میں شریک تمام افراد کی آراء اور خیالات پر عمل نہیں کرسکتا، وہ صرف اپنے ذاتی حالات کے اعتبار سے صرف کسی ایک کی رائے کو اختیار کرسکتا ہے؛ اس لیے اگر کسی کے مشورہ پر عمل نہ کیا جائے تو اس سے دل گیر اور رنجیدہ نہیں ہونا چاہیے، خوش دلی اور خندہ پیشانی سے مشورہ کرنے والے کے فیصلہ پر رضامندی کا اظہار کیا جائے، دوسری طرف سے طالب مشورہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ مشیر پر نکتہ چینی نہ کرے اور اس پر بہتان جیسے گناہ میں ملوث نہ ہو۔
(۴) مکمل حدیث سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ کہ مشورہ دینے والے کی ذمہ داری ہے کہ جس معاملہ میں مشورہ لیا گیا ہے، اس کو راز سمجھے، لوگوں کے سامنے اس کو ظاہر نہ کرے، جیسے کسی نے اپنی بیوی کے کسی معاملہ کے بارے میں مشورہ کیا یا لڑکی اور لڑکے کے رشتہ یا کسی اور معاملہ میں رائے معلوم کی تو گویا یہ مشیر اور مستشیر (مشورہ دینے والے اور مشورہ لینے والے )کے درمیان ایک راز کی بات ہوگی، ہوسکتا ہے کہ مشورہ لینے والا چاہتا ہو کہ اس کی یہ باتیں مشیر کے علاوہ دوسروں تک نہ پہنچے، دوسروں کے سامنے بیان کرنے سے یقینا اس کو تکلیف پہنچے گی اور یہ خیانت کا معاملہ ہوگا، رسولِ اکرم ا نے ارشاد فرمایا ”اَلْمُسْتَشَارُ مُوٴتَمِنٌ “[3]یعنی جس شخص سے مشورہ کیا جاتا ہے وہ امانت دار ہوتا ہے، اسے امانت داری کا پورا حق ادا کرنا چاہیئے۔ آج کل دیگر خرابیوں کے ساتھ ایک خرابی یہ بھی ہے کہ کسی کے راز کو راز نہیں سمجھا جاتا، کسی کے بارے میں کوئی چیز معلوم ہوتی ہے تو فوراً اسے عام کرنے کی فکر ہوجاتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں جھگڑے، فسادات، دشمنیاں اور نااتفاقیاں پھیلتی ہیں، ضرورت ہے کہ دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کیا جائے اور اتحاد و یگانگت کا ماحول بنایا جائے۔
مندرجہ بالا مطالب سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ تمام مشیروں کو اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے مستشیر کو مشورہ دینا چاہئے تاکہ جب وہ کامیابی و کامرانی سے سرخ رو ہو تو یہ سنت حسنہ زیادہ سے زیادہ احیا ہوسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] مکاتیب الائمہ علیھم السلام، ج۳، ص۱۹۴،احمدى ميانجى، على، انتشارات دار الحديث، قم، 1426 ق، چاپ اول۔
[2] بحار الانوار، ج۷۲، ۱۰۴، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى،دار إحياء التراث العربي،بيروت، 1403 ق، چاپ دوم۔
[3] بحار الانوار ج۴۳، ص۳۳۸، بحار الانوار، ج۷۲، ۱۰۴، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى،دار إحياء التراث العربي،بيروت، 1403 ق، چاپ دوم۔
Add new comment