خانہ کعبہ پر حملہ اور تعمیر نو، تاریخ کے آئینہ میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: خانہ کعبہ مسلمانوں کے لیئے ایک اہم مرکزیت کا حامل ہے۔ نہ فقط اسلام کے بعد بلکہ اسلام سے پہلے بھی کعبہ کا بہت احترام تھا۔ خانہ کعبہ پر کئی مرتبہ حملے ہوئے ان میں سے ایک حملہ حجاج ابن یوسف سقفی نے کیا۔ بعض تاریخوں کے مطابق ۳ ربیع الثانی کو یہ حملہ ہواِ، اسی مناسبت سے مقالہ ھذا میں خانہ کعبہ پر ڈھائی گئی چند مصیبتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

خانہ کعبہ پر حملہ اور تعمیر نو، تاریخ کے آئینہ میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خانہ کعبہ ہمیشہ سے ایک مقدس ترین اور مبارک ترین عبادتگاہ رہی ہے، جس کو خداوند عالم نے یوں بیان فرمایا کہ ’’إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكاً وَهُدًى لِّلْعَالَمِين‘‘ (سورہ آل عمران 96) بے شک سب سے پہلا گھر(عبادت کے لیئے) جو تمام لوگوں کے لیے معین ہوا، وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے، اسکو خیر و بابرکت اور تمام جہان والوں کے لیئے سرمایہ ہدایت قرار دیا۔
لیکن تاریخ میں متعدد بار اس مقدس مکان کی بے حرمتی ہونا درج ہے، وہ چند اہم مواقع اس طرح ہیں:

1) بعض تاریخوں کے مطابق کعبہ کی سنگ بنیاد جناب آدم ابوالبشر(علیہ السلام) نے رکھی تھی[1] اور جناب شیث (علیہ السلام) کی طرف بھی نسبت دی جاتی ہے کہ اپنے والد کے بعد انہوں نے بھی تعمیری کام انجام دیئے[2] اور پھر جناب ابراھیم (علیہ السلام) نے مختصر بنی ہوئی عمارت، کہ جس کہ فقط چند ستون باقی رہ گئے تھے، کی تعمیر نو انجام دی۔ سورہ بقرہ کی 127 نمبر آیت بھی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ’’وَ إِذْ یَرْفَعُ إِبْراهیمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ إِسْماعیلُ رَبَّنا تَقَبَّلْ مِنّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمیعُ الْعَلیمُ‘‘ اور یاد کرو جب ابراھیم اور اسماعیل اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے: اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔
البتہ کئی مفسرین کا ماننا ہے کہ جناب ابراہیم(علیہ السلام) نے کعبہ کی تجدید یا مرمت نہیں کروائی بلکہ بنیاد رکھی ہے[3]

2) سنہ 571 عیسوی میں یمن کے بادشاہ ابرھہ نے کعبہ پر حملہ کیا اور اسکا مقصد کعبہ کا انھدام تھا، ابرھہ نے اپنے فیل سوار لشکر کے ساتھ کعبہ پر حملہ بول دیا۔ خداوند عالم نے ابابیل کے ذریعہ اس لشکر کو تباہ کر دیا اور اس طرح یہ ایک مشہور قرآنی واقعہ بنا اور سال عام الفیل کا آغاز ہوا۔[4] 

3)خانہ کعبہ کی تعمیر کے سلسلہ میں مورخین لکھتے ہیں کہ قریش نے بعثت کے پانچ سال بعد کعبہ کی از سرنو تعمیر کی، یعنی جس کعبہ کی عمارت کی  بنا حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے ڈالی تھی اس میں اساسی تبدیلی کی گئی، اس تعمیر کی وجہ آگ لگنا یا سیلاب کا آنا بتایا جاتا ہے۔ یہ تبدیلی کعبہ کی اونچائی میں اضافہ، طول میں کمی، مغربی دروازہ کا بند کرنا اور مشرقی دروازہ کی ارتفاع میں اضافہ کی صورت میں رو نما ہوئی[5]

4) فتح مکہ کا واقعہ جو ھجرت کے 13سال میں رو نما ہو،اپنی مثال آپ ہے جو تمام بادشاہوں اور لشکر کے لیئے درس ہے، اس واقعہ میں شہر بھی فتح ہوا اور لوگ بھی تسلیم ہوئے لیکن خانہ کعبہ کی ذرا سی بے حرمتی نہ ہونے دی گئی، کیوںکہ اس فتح کو مرسل اعظم رحمۃ للعالمین محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے انجام دیا تھا۔ اور تنھا چیز جو توڑی گئی وہ خانہ کعبہ پر رکھے ہوئے بت تھے اور یہ نیک کام مولائے کائنات حضرت علی (علیہ السلام) کے ہاتھوں ہوا۔

5)یزید کے کچھ سیاہ کارناموں میں سے تین سر فہرست ہیں، سن 61 ھ میں امام حسین(علیہ السلام) اور انکے اہلبیت (علیہم السلام) کو شھید کیا، سن 63 ھ میں واقعہ حرہ رو نما ہوا کہ جس میں یزیدِ پلید نے مکہ مکرمہ کو اپنی فوج پر تین دن تک مباح کر دیا تھا  اور سن 64 ھ میں حصین ابن نمیر کی قیادت میں[6] ایک لشکر مکہ کی جانب روانہ کیا اور اس حملہ میں خانہ کعبہ کو کافی نقصان ہوا یہاں تک کعبہ مٰیں آگ لگا دی گئی جس سے کعبہ کی لکڑیان اور غلاف جل کر راکھ ہو گئے[7] اور منجنیق کے ذریعہ پتھراؤ ہوا جس سے کعبہ کہ اصلی دیواریں خراب ہو گئیں۔ اس حادثہ کے بعد عبد اللہ ابن زبیر نے نویں بار کعبہ کی تجدید بنا کروائی اور اس کے ستوںوں کو دوبارہ مستحکم کروایا[8]۔

6) حجاج ابن یوسف نے سنہ 73 ہجری میں عبید اللہ ابن زبیر کی حکومت کا تختہ بلٹنے کی غرض سے کعبہ پر حملہ کیا اور ابن زبیر اور اس کے ساتھی استقامت نہ کر سکے، چنانچہ مکہ پر حجاج قابض ہوا اور اس نے ابن زبیر کی لاش کو تختۂ دار پر لٹکایا اور بیت الحرام میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، اس واقعے میں خون ناحق کی ارزانی بھی دیکھنے میں آئی[9] ، اس جنگ میں کعبہ کی عمارت کو کافی نقصان ہوا۔ عبد الملک ابن مروان نے حجاج کو حکم دیا کہ جو ’حطیم‘(حجر اسماعیل کا ایک حصہ) ابن زبیر نے مرمت کے دوران بڑہا دیا تھا اسکو دوبارہ، جس طرح قریش کے زمانے میں تھا، اسی حالت پر پلٹادے۔ چنانچہ حجاج نے دوبارہ کعبہ کی عمارت کی تجدید کی[10]۔

7) ذی الحجہ کے سنہ 317 ہجری میں قرمطیوں نے مکہ معظمہ پر حملہ کیا اور کئی روز تک اس مقدس شہر اور حرم امن میں لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا اور وہاں کے باشندوں اور زائرین و حجاج کا قتل عام کیا اور مقامات مقدسہ میں قبیح اور توہین آمیز اعمال کے مرتکب ہوئے اور وسیع سطح پر تخریب کاریاں کیں اور آخر کار حجر الاسود کو کعبہ سے جدا کرکے اپنے نئے دارالحکومت میں لے گئے۔ 22 سال حجر الاسود کعبہ سے دور رہا اور سنہ 339 ہجری میں بڑی رقوم وصول کرکے حجر الاسود کو مکہ میں لوٹا دیا۔[11]

8)حجاج ابن یوسف کے زمانے مٰیں کعبہ کی دسویں بار تجدیدِ بنا ہوئی اور اس وقت سے لے کر سن 1039ھ تک کوئی اساسی تعمیری کام نہ ہوا یہاں تک کہ بہت بڑا سیلاب مکہ میں آیا، یہ سیلاب اتنا خطرناک تھا کہ 4000 لوگ اسکی زد میں آکر جاں بحق ہو گئے۔ یہ اتفاق عثمانی بادشاہ سلطان مراد خان کے زمانہ میں ہوا اور کعبہ کی جو دیواریں چٹخ گئیں تھیں انکی تعمیر ہوئی[12]۔

9) پہلی محرم 1400ھ  مطابق 20 نومبر1979کو 500 اسلحہ سے لیث سلفیوں نے مسجد الحرام کی حرمت کو پامال کیا اور کعبہ کو محاصرہ میں لے لیا، کچھ کو قیدی بنایا اور کچھ کو مارڈالا، دو ہفتوں تک یہ خون ریزی اور کعبہ کی حرمت شکنی وہابی حکومت کے زمانے میں چلتی رہی۔ دوسرے ممالک کی مداخلت کے بعد اس بحرانی کیفت پر قابو پایا گیا جس میں 127 مارے کئے 117 گرفتار ہوئے، ان میں اس گروہ کا سرغنہ ’جہیمان العتیبی‘ بھی پکڑا گیا جو اپنے آپ کو ’مھدیِ موعود‘ کہتا تھا اور اسی خام خیالی مٰیں قیام کیا تھا۔

آخری حجت خدا کا ظہور:

قرآن اور احادیث کی رو سے، شیعوں کے عقیدہ کے مطابق خانہ کعبہ میں ایک اور لیکن آخری بار، عظیم واقعہ پیش آئے گا کہ جس وقت اللہ کی آخری حجت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے نائب بر حق کا ظہور ہو گا اور خانہ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگا کر آواز دیں گے ’انا بقیۃ اللہ‘[13]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1] تاریخ کعبه و مسجدالحرام. دماوندی، محمد معصوم بن محمدصالح. ویرایش رسول جعفریان. تابستان 1374، میقات حج، ص113
[2] تاریخ بنای کعبه. هندی، مبارک علی.ترجمه حسین واثقی. بهار 1389،ص119
[3] کعبه و بررسی تاریخ بنای آن در قرآن. امام، سیدجلال. معرفت، شماره 114، خرداد 1386،
[4] ۔سعد بن حسین عثمان و عبدالمنعم ابراهیم الجمیعی، الاعتداءات علی الحرمین، ص18-19۔
[5] تاریخ بنای کعبه. هندی، مبارک علی.ترجمه حسین واثقی. بهار 1389
[6]الدينوري، الاخبار الطِّوال، ص246۔ اور۔ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص251۔
[7] تاریخ طبری، ج5، ص497-499۔
[8] تاریخ بنای کعبه. هندی، مبارک علی.ترجمه حسین واثقی. بهار 1389
[9] بهار، تاریخ سیستان، ص109۔
[10] الزقن، محمد. کعبه و جامه آن از آغاز تاکنون. ترجمه هادی انصاری نشر مشعر، 1384
[11] دفتری، خرافات الحشاشين وأساطير الإسماعيليين، صص42
[12] مفرحه الانام فی تاسیس بیت‌الله الحرام. بن نورالدین علی حسینی کاشانی، زین‌العابدین. ویرایش رسول جعفریان. میقات حج، شماره دوم، پاییز 1372
[13] مستدرک الوسائل، ج12، ص335.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 45