خلاصہ: اللہ تعالی کو ظاہری آنکھوں سے دیکھنا نہ دنیا میں ممکن ہے اور نہ آخرت میں، مگر ایمان کے ذریعے دل کی نظر سے اللہ تعالی کو دیکھا جاسکتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ نے اپنے نورِ عظمت میں سے جو دیکھایا، وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل کے ذریعے تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں: " إنَّ اللّه َ تَبارَكَ و تَعالى أرى رَسولَهُ بِقَلبِهِ مِن نورِ عَظَمَتِهِ ما أحَبَّ [1]"، "بیشک اللہ تبارک و تعالی نے اپنے رسولؐ کو آنحضرتؐ کے دل کے ذریعے اپنے نورِ عظمت میں سے جو پسند کیا، دکھایا "۔
اللہ کو ظاہری آنکھوں سے دیکھنا ناممکن: اللہ تعالی کو سر کی آنکھوں سے دیکھنا جسے "رؤیت حسی" کہا جاتا ہے، ناممکن ہے اور اللہ ایسے دیکھے جانے سے پاک و منزہ ہے اور "رؤیت حسی" اللہ تعالی کی صفات سلبی میں سے ہے۔ سر کی آنکھوں سے نہ دیکھے جانے کی دلیل یہ ہے کہ اسی چیز کو دیکھا جاسکتا ہے جو محدود جگہ میں اور خاص طرف میں قرار پائے اور جسم سے اس کی طرف اشارہ کیا جاسکے، لیکن کیونکہ اللہ تعالی جسم نہیں رکھتا ہے تو اس کے لئے نہ جگہ، نہ طرف اور نہ اشارہ ممکن ہے[2]، لہذا اس کا دیکھا جانا بھی ممکن نہیں ہے۔ اہلسنت کے بہت سارے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالی اِس دنیا میں دکھائی نہ دے تو قیامت کے دن نظر آئے گا جبکہ قرآن، احادیث اور عقل اس نظریہ کی بالکل نفی کرتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ معاد کے جسمانی ہونے کے باوجود بھی دنیا اور آخرت کا آپس میں اِس لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی کی پاک ذات "مادہ" سے ماوراء ہے اور قیامت کے دن نہ اس میں کوئی مادی اثرات پیدا ہوں گے اور نہ ہی وہ لامحدود ذات محدود ہوجائے گی، قیامت تو مخلوق کے لئے ہے کہ انہوں نے قیامت کے دن اس ذات کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے اور ان کی اطاعت اور عصیان کا فیصلہ ہونا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی کائنات میں جو اثر ایجاد کرتا ہے اس کا اثر خود اس کی ذات پر ہرگز نہیں پڑتا وہ اس سے بالکل پاک و منزہ اور سبحان و متعال ہے۔ شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ کو دیکھنے سے مراد سر کی آنکھوں سے دیکھنا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد قلبی نظر ہے کہ دل، ایمان کی حقیقت کے ذریعہ سے دیکھتا ہے۔ لہذا سر کی آنکھوں سے اللہ تعالی نہ دنیا میں دیکھا جاسکتا ہے نہ آخرت میں۔ اس کی واضح قرآنی دلیل یہ ہے کہ حضرت موسی (علیہ السلام) سے خداوند متعال نے فرمایا: "لَن تَرَانِي[3]"، "تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے ہو"، نیز سورہ انعام میں ارشاد فرمایا ہے: "لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ"[4]، "نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں اور وہ نگاہوں کا برابر ادراک رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے" اور سورہ شوری میں فرمایا: "لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ"، "اس کا جیسا کوئی نہیں ہے وہ سب کی سننے والا اور ہر چیز کا دیکھنے والا ہے"۔
ایمان کے ذریعے دل سے دیکھنا: حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے ایک صحابی "ذعلب یمانی" جو شجاع اور فصیح تھا، اس نے آنحضرت (علیہ السلام) سے دریافت کیا: "هَل رَأَيتَ رَبَّكَ يا أَميرَ المُؤمِنينَ "، "کیا آپ (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے یا امیرالمومنین"؟ تو آنحضرت (علیہ السلام) نے فرمایا: "أفأعبد ما لا أرى؟ "، "کیا میں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جسے میں نے دیکھا تک نہیں"، یہاں پر ذعلب غور کرنے لگا کہ اس جملہ میں کون سا دیکھنا امام کی مراد ہے؟ کیا سر کی آنکھوں سے دیکھنا مراد ہے جو اللہ کی جسمانیت کے قائل (مجسّمہ) ہیں؟ یا روحانی اور معنوی دیکھنا جو عقلی دیکھنے سے بلندتر ہے؟ لہذا فورا پوچھا: "و كيف تراه؟ " آپ (علیہ السلام) کیسے اللہ کو دیکھتے ہیں؟ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے فرمایا: "لَا تُدْرِكُهُ الْعُيُونُ بِمُشَاهَدَةِ الْعِيَانِ، وَ لكِنْ تُدْرِكُهُ[5]"…، "آنکھیں اسے کھلم کھلا نہیں دیکھتیں بلکہ دل ایمانی حقیقتوں سے اسے پہچانتے ہیں۔ وہ ہر چیز سے قریب ہے۔ لیکن جسمانی اتصال کے طور پر نہیں۔ و ہ ہر شئ سے دور ہے ۔مگر الگ نہیں وہ غور و فکر کئے بغیر کلام کرنے والا اور بغیر اعضاء (کی مدد سے) بنانے والا ہے۔ وہ لطیف ہے لیکن پوشیدگی سے اسے متصف نہیں کیا جاسکتا۔ وہ بزرگ و برترہے مگر تند خوئی اور بدخلقی کی صفت اس میں نہیں ۔وہ دیکھنے والا ہے مگر حواس سے اسے موصوف نہیں کیا جاسکتا۔ وہ رحم کرنے والا ہے مگر اس صفت کو نرم دلی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔چہرے اس کی عظمت کے آگے ذلیل و خوار اور دل ا س کے خوف سے لرزاں و ہراساں ہیں"۔
نیز سیدالعارفین حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) دوسری حدیث میں فرماتے ہیں: "ما رأيت شيئاً إلاّ ورأيت الله قبله ومعه وبعده "[6]، "میں نے کسی چیز کو نہیں دیکھا مگر میں نے اللہ کو اس سے پہلے اور اس کے ساتھ اور اس کے بعد دیکھا"۔ اور آپ (علیہ السلام) کے فرزند حضرت سیدالشہدا٫ (علیہ السلام) بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: "عَمِيَت عَينٌ لا تَراكَ عَلَيها رَقيبا [7]"، "وہ آنکھ اندھی ہے جو تجھے اپنے اوپر محافظ نہیں دیکھتی"۔
اِس وضاحت کے بعد اب حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی مذکورہ بالا حدیث پر غور کرتے ہیں۔ یہ حدیث مکمل طور پر اس طرح ہے کہ یعقوب ابن اسحاق کا کہنا ہے کہ میں نے ابومحمد (علیہ السلام) (یعنی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام) سے دریافت کیا: "كيف يعبد العبد ربه وهو لا يراه"، "بندہ کیسے اپنے پروردگار کی عبادت کرتا ہے جبکہ اسے نہیں دیکھتا؟ " تو آپ (علیہ السلام) نے تحریر فرمایا: "يا أبا يوسف جَلَّ سَيِّدى وَ مَوْلاىَ وَ المُنْعِمُ عَلَىَّ وَ عَلى آبائى أَنْ يُرَى"، "میرا آقا و مولا اور مجھے اور میرے آباء کو نعمتیں دینے والا اس سے برتر ہے کہ (ظاہری آنکھ سے) دیکھا جائے"۔ راوی کا کہنا ہے کہ میں نے سوال کیا: "هل رأى رسول الله صلىاللهعليهوآلهوسلم ربه؟"، "کیا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اپنے پروردگار کو دیکھا؟" تو آپ (علیہ السلام) نے تحریر فرمایا: "انَّ اللَّهَ تَبارَكَ وَ تَعالَى أَرَى رَسُوْلَهُ بقَلْبهِ مِنْ نُوْر عَظَمْتِهِ ما احَبَّ"[8]، "بیشک اللہ تبارک و تعالی نے اپنے رسولؐ کو ان کے دل کے ذریعے اپنے نورِ عظمت میں سے جو پسند کیا، دکھایا"۔ حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی اس نورانی حدیث کو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کی مندرجہ ذیل احادیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "لَمّا اُسرِيَ بي إلَى السَّماءِ بَلَغَ بي جَبرَئيلُ مَكانا لَم يَطَأْهُ جَبرئيلُ قَطُّ، فكُشِفَ لي فأرانِيَ اللّه ُ عَزَّ و جلَّ مِن نورِ عَظَمَتِهِ ما أحَبَّ[9]"، "جس رات مجھے آسمان کی طرف لے جایا گیا تو جبرئیل نے مجھے ایسی جگہ پر پہنچایا جہاں پر جبرئیل نے ہرگز قدم نہیں رکھا تھا تو میرے لیے (پردے) ہٹائے گئے تو اللہ عزوجل نے اپنے نورِ عظمت میں سے مجھے دکھایا جو اس نے پسند کیا"۔ اور حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "رَأى رَسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله رَبَّهُ عز و جل . يَعني بِقَلبِهِ[10]"، "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے رب عزوجل کو دیکھا، یعنی اپنے دل کے ذریعے"۔ امام المتقین حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نے یہودی شخص کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: …" فَرَأى عَظَمَةَ رَبِّهِ عز و جل بِفُؤادِهِ ولَم يَرَها بِعَينِهِ"[11]، "تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب عزوجل کی عظمت کو دیکھا اپنے دل سے نہ کہ اپنی آنکھ سے"۔
نتیجہ: اللہ تعالی کو سر کی آنکھوں سے دیکھنا بالکل محال اور ناممکن ہے اور اللہ کی ذات ایسے دیکھے جانے سے پاک و منزہ ہے، مگر اللہ تعالی کو ایمان کے ذریعے، دل سے دیکھا جاسکتا ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے دل کے ذریعے اپنے نورِ عظمت میں سے جو پسند کیا، دکھایا اور حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت نہیں کی مگر یہ کہ اللہ کو دیکھا اور حضرت سیدالشہداء (علیہ السلام) کے بیان کے مطابق وہ آنکھ اندھی ہے جو اللہ کو اپنے اوپر محافظ نہیں دیکھتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] الكافي : ج1، ص95۔
[2] کشف المراد، ص47 سے اقتباس۔
[3] سورہ اعراف، آیت 144۔
[4] سورہ انعام، آیت 103۔
[5] نہج البلاغہ، خطبہ 177۔ درمیان میں وضاحت اقتباس از: پيام امام امير المومنين عليه السلام ، ناصر مكارم شيرازى، ج6، ص636۔
[6] مفاهيم القرآن، شیخ جعفر سبحانی، ج6، ص127۔
[7] بحار الأنوار، علامہ مجلسی، ج95، ص226۔
[8] توحيد صدوق، صفحه 108، حديث 2۔
[9] التوحيد : 108/4۔
[10] التوحيد، ص 116، ح 16، بحار الأنوار، ج 4، ص 43، ح 19۔
[11] بحار الأنوار، علامہ مجلسی، ج3، ص320، ح16۔
Add new comment