عالم تشیع میں عظیم شخصیات گذری ہیں ۔ان شخصیات میں سے ایک محقق حلی ہیں جو محقق اول کے نام سے مشہور ہیں؛ ان کی عظیم اور قابل تحسین خدمات ہیں؛ جن میں سے ایک عظیم خدمت ان کی لکھی گئی کتاب شرایع الاسلام ہے جو 6 صدیوں کے بعد آج بھی علوم دینیہ کے مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
علمائے دین اور فقہائے عظام کا دین کی نشر و اشاعت میں بنیادی کردار ہوتا ہے جبکہ اگر علماء دین نہ ہوتے تو دین آج ہم تک نہ پہنچتا؛ دوسری طرف کسی ایک عالم دین کا ایسا مقام ہوتا ہے کہ اگر جب تک دنیا میں رہتے ہیں تو دین کی خدمت اور عوام کی ہدایت کے لئے عظیم سرمایہ اور رحلت کے سبب سے اسلام میں ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جو کبھی نہیں بھرتا جیسے حدیث میں ہے کہ " وَ إِذَا مَاتَ الْعَالِمُ ثُلِمَ فِی الْإَسْلَامِ ثُلْمَةٌ لَا یَسُدُّهَا شَیْءٌ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَة "[1]
ان فقہا میں سے ایک عظیم فقیہ محقق حلی ہیں جن کے عظمت اور جلالت کے متعلق اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ عظیم شخصیت، علامہ حلی جیسی عظیم شخصیت اور عظیم فقیہ و عالم کے ماموں اور استاد بھی ہیں۔
محقق حلی کا اسم گرامی ابو القاسم جعفر بن حسن بن یحیی بن سعید حلی ہے۔ آپ شہر حلہ میں سنہ 602 میں پیدا ہوئے اور عربی ادب، اپنی والدہ سے سیکھا۔ علم ہیئت اور ریاضیات، منطق اور کلام کو حاصل کرنے کے بعد فقہ اور اصول کو اپنے والد گرامی حسن بن یحیی سے حاصل کیا اور ساتھ ساتھ ابن نما حلی، سید فخار موسوی جو کہ ابن ادریس حلی کے عظیم شاگردوں میں سے تھے کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔
آپ کے بعض شاگردوں کے نام کچھ یوں ہیں:
1. علامہ حلی: محقق کے بھانجے حسن بن یوسف بن مطہر حلی جو آٹھویں صدی میں وفات پائے اور فقیہ، متکلم، رجالی، اصولی بزرگ علما میں سے تھے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے 120 کتابیں لکھی جن میں سے 101 کتاب یقیناً انہیں کی لکھی گئی کتب میں سے ہیں؛
2. ابن داود حلی: ساتویں صدی کے عظیم رجالی، فقیہ، ادیب، شاعر جو علامہ حلی کے ہم عصر علماء میں سے ہیں انکی رجال ابن داود شہرت یافتہ کتب میں سے ایک ہے؛
3. علی بن یوسف حلی: علامہ حلی کے بڑے بھائی ہیں جن کے شاگردوں میں سے علامہ حلی کے بیٹے فخر الحققین ایک ہیں۔ انہوں نے فقہ، اصول، اور کلام میں عظیم شخصیات کو تعلیم دی اور کتابیں بھی لکھی لیکن اب ان کی لکھی گئی کتابوں میں سے صرف ایک کتاب جو " العدد القویة لدفع المخاوف الیومیة" ہے جو عربی زبان میں اور ماہانہ اذکار، ادعیہ اور ایام کے حالات کے متعلق لکھی گئی ہیں؛
4. فخر المحققین: محمد بن حسن حلی، علامہ حلی کے فرزند ہیں جنہوں نے فقہ، اصول، کلام کے عظیم مقامات حاصل کیے اور مختلف علوم میں کتابیں لکھیں جن میں کچھ مندرجہ ذیل ہیں: "ایضاح الفوائد" فقہ میں۔ اصول دین میں "تحصیل النجاۃ"۔ علم کلام میں "شرح نہج المسترشدین"۔ علم اصول میں "شرح مبادی الاصول"۔فخر المحققین کے شاگردوں میں سے شہید اول، سید حیدر آملی، اور فخر المحققین کے فرزند، ظہیر الدین ہیں۔ وہ سنہ 771 میں 89 کی عمر میں اس دنیا سے چل بسے۔
محقق حلی نے بہت ساری کتابیں لکھیں جن سے ان کی علمی شخصیت اور ان کی انشا کی نہایت سلاست اور روانی نظر آتی ہے ان کی بہت ساری کتابیں شائع ہو چکی ہیں؛ جن میں سے ریحانۃ الادب کے مصنف محمد علی مدرس تبریزی اور صاحب ریاض العلما، میرزا عبداللہ اصفہانی افندی نے 14 کتابوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے بعض اب بھی علمی حوزات میں نصاب تعلیم میں شامل ہیں۔
آپ کی بعض کتابوں کے نام کچھ یوں ہیں: [2]
1۔ فقہ میں شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام:[3] یہ ایسی کتاب ہے جو شیعہ فقہ میں بہترین کتب میں سے ایک ہے؛ صاحب جواہر علامہ شیخ محمد حسن نجفی کی کتاب جواہر الکلام جو 43 مجلدات پر مشتمل ہے، اسی کتاب کی عظمت کو نمودار کرتی ہے جو صاحب جواہر نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں، شرایع کے متن اور اس کی جامعیت، مباحث کے استحکام، قلم کی سلاست اور گھلاوٹ اور لطافت ہی کی وجہ کو اس کتاب پر شرح لکھنے کا سبب بیان کیا ہے۔
شرائع الاسلام کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس عظیم کتاب پر اب تک 40 شرحیں لکھی جا چکی ہیں اور جامعہ الازہر مصر میں پڑھائی جاتی ہے۔
اسی طرح فقہ میں: رسالۃ فی القبلۃ و المعتبر، مختصر مراسم سلار دیلمی،
2۔ اصول فقہ میں: المعارج فی اصول الفقہ، اور نہج الوصول الی معرفۃ علم الاصول
3۔اعتقادات میں: المسلک فی اصول الدین،
4۔ علم منطق میں: النکھۃ فی المنطق
محقق حلی، مشاہیر کی نظر میں:
علامہ حلی نے جو خاندان زہرہ کو اجازت نامہ دیا ہے اس میں محقق کے بارے میں لکھا ہے: "کان ھذا الشیخ افضل اھل عصرہ فی الفقہ"؛ " یہ عظیم عالم (محقق حلی) اپنے زمانے کے فقہا میں سب سے بڑھ کر فقیہ تھے"[4]
شیخ حسن، شہید ثانی کے فرزند جو صاحب معالم سے مشہور ہیں نے آپ کے بارے میں کہا ہے کہ: "اگر علامہ حلی، محقق کو تمام زمانوں کے فقہا سے افضل کہتے تو زیادہ بہتر ہوتا؛ کیونکہ محقق تمام فقہا سے بڑھ کر فقیہ ہیں جن کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی"[5]
شہید مطہری ان کے بارے میں کچھ یوں رقمطراز ہیں کہ: "علم فقہ میں ان پر کسی کو فضیلت نہیں دیا کرتے۔ جب فقہا کی اصطلاح میں "محقق" کا لفظ بغیر کسی دوسرے وصف کے ساتھ آئے تو یہی عظیم کردار شخصیت مراد ہوتی ہے۔ خواجہ نصیرالدین طوسی جو عظیم فلاسفر اور ریاضی دان تھے نے شہر حلہ میں ان سے ملاقات کی ہے اور ان کے درس فقہ میں حاضر ہوئے۔ محقق کے کتب میں سے خاص کر شرایع الاسلام کو طلاب کے نصاب تعلیم میں شامل کیا گیا ہے اور عظیم فقہا نے ان کی اس کتاب پر متعدد شرحیں لکھی ہیں۔"[6]
بالاخر 74 سال کی با برکت عمرکے بعد سنہ 676 میں جمعرات کے دن شہر حلہ میں محقق کی وفات ہوئی۔[7]
نتیجہ: عالم تشیع میں عظیم شخصیات گذری ہیں اور ہر ایک کا اپنا رتبہ اور مقام ہے لیکن ان میں سے بعض ایسے ہیں جو دوسرے علما اور فقہا سے کہیں بڑھ کر ہیں، ان شخصیات میں سے ایک محقق حلی ہیں جو محقق اول کے نام سے مشہور ہیں؛ ان کی عظیم اور قابل تحسین خدمات ہیں؛ جن میں سے ایک عظیم خدمت ان کی لکھی گئی کتاب شرایع الاسلام ہے جو 6 صدیوں کے بعد آج بھی علوم دینیہ کے مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔
...........................
حوالہ جات:
[1] مشکاة الأنوار فی غرر الأخبار، النص، ص: 132
[2] مدرس، محمدعلی، ریحانه الادب، ج5، ص235.
[3] مدرس، محمدعلی، ریحانه الادب، ج5، ص235.
[4] امین، سید محسن، اعیان الشیعة، ج4، ص89.
[5] امین، سید محسن، اعیان الشیعة، ج4، ص89.
[6] مطهری، مرتضی، آشنایی با علوم اسلامی، ج3، ص81-82
[7] مدرس، محمدعلی، ریحانه الادب، ج5، ص23.
Add new comment