حکیم اور احمق

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: زبان ہر نیکی اور برائی کی کنجی ہے اسی لئے انسان کو چاہئے کہ وہ اس کی حفاظت کرے جس طرح سونے اور چاندی کی حفاظت کرتا ہے[۱]، جس طرح سونے اور چاندی کو ہر کسی کے سامنے پیش نہیں کرتا اسی طرح اپنی زبان کو بھی ہر چگہ نہ کھولے۔
[۱] محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي – بيروت، دوسری چاپ، ج۷۵، ص۱۷۸، ۱۴۰۳ق.

حکیم اور احمق

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     خدا کی عطا کی گئی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت جس کے ذریعہ انسان بہت زیادہ مقاصد جیسے عبادت، ہدایت، تعلیم وغیرہ کو حاصل کرتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے وہ نعمت اس کی زبان ہے، لیکن اس نعمت کو صحیح  اور منظم طریقہ سے استعمال کرنا ضروری ہے تاکہ اس کے ذریعہ دنیا اور آخرت کے خیر کو حاصل کیا جاسکے، کیونکہ اسی انسان کے بدن کے ایک چھوٹے سے حصہ میں اتنی قابلیت ہے کہ وہ انسان کو بلندیوں تک پہونچا سکتا ہے اور یہی وہ زبان ہے جس سے انسان کے تمام اعضاء اور جوارح پناہ مانگتے ہیں[۱] اسی لئے انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کو صحیح طریقہ سے استعمال کرے تاکہ خدا کی اس نعمت کے ذریعہ دنیا اور آخرت کے فائدوں کا حاصل کیا جاسکے ایسا نہ ہو کہ یہ رسوائی اور پشیمانی کا سبب بنے۔
     اس کی صحیح طریقہ سے مدیریت اور استعمال کا طریقہ یہ ہے کہ انسان کے ذھن میں جو بات آئے اسے کہنے کے لئے جلدی نہ کرے بلکہ جب کوئی بات کہنا چاہے تو پہلے سوچے اور سمجھے اور اگر اس کے بعد اس نتیجہ پر پہونچے کہ اس بات کو اس وقت کہنا چاہئے تو اس کو کہے اور اگر وہ وقت یا ماحول مناسب نہیں ہے تو اسے نہ کہے، امام حسن عسکری(علیہ السلام) اس کے بارے فرمارہے ہیں: «قَلْبُ‏ الْأَحْمَقِ‏ فِي‏ فَمِهِ‏ وَ فَمُ الْحَكِيمِ فِي قَلْبِهِ؛ بے وقوف(احمق) کا دل اس کی زبان میں ہوتا ہے اور حکیم کی زبان اس کے دل میں»[۲].
     امام(علیہ السلام) یہاں پر زبان کو اشارہ کے طور پر بیان فرمارہے ہیں، آپ اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ سمجھدار اور عقلمند انسان پہلے سوچتا ہے پھر اپنی زبان کھولتا ہے لیکن بےوقوف انسان پہلے بولتا ہے پھر سوچتا ہے کہ اس نے جو کہا ہے وہ صحیح تھا یا غلط اور یہ اس کا کہنے کے بعد سوچنا، اسے کسی طرح کا فائدہ نہیں پہونچاتا کیونکہ وہ ایک تیر کی طرح ہے جو کمان سے نکل چکا اور اب وہ کمان میں واپس ہونے والا نہیں ہے۔
     رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) اسی سے مشابہ حدیث میں فرمارہے ہیں: «لا یَسْتِقیْمُ اِیْمانُ عَبْد حتّى یَسْتَقِیْمَ قَلْبُهُ وَلا یَسْتَقِیْمُ قَلْبُهُ حَتّى یَسْتَقِیْمَ لِسانُهُ؛ کس بھی بندہ کا ایمان صحیح نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا دل صحیح نہ ہو اور اس کا دل صحیح نہیں ہو سکتا جب تک کے اس کی زبان صحیح نہ ہو»[۳].
نتیجہ:
     اگر ہم اپنا شمار حکیم اور عقلمند لوگوں میں کروانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ جس طرح کی گفتو سے معصومین(علیہم السلام) نے منع کیا ہے مثلا جھوٹ، غیبت، نیکی یا احسان جتانا وغیرہ، اس سے پرہیز کریں تاکہ ہمارا شمار بےوقوف اور احمق لوگوں میں نہ ہو۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حوالے:
[۱] محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي – بيروت، دوسری چاپ، ج۶۸، ص۲۷۸، ۱۴۰۳ق.
[۲] گذشتہ حوالہ، ص۳۱۲۔
[۳] محمد بن حسین رضی، نھج البلاغہ، محقق: صبحی صالح، ہجرت، قم، ۱۴۱۴ھ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 9 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 39