خلاصہ: شیعہ کی نظر میں تو یہ بات واضح اور متفقہ علیہ نظریہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا جنازہ رات کے وقت کیوں تشییع ہوا اور رات کی تاریکی میں کیوں دفن ہوا اور بعض لوگوں کو تشییع جنازہ کی اطلاع کیوں نہ دی گئی، یہ بات اس قدر واضح ہے کہ اہلسنت کے بڑے علماء نے بھی اس کی وجہ کھلم کھلا بیان کردی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رات کو دفن کرنا، خلیفہ وقت سے خفیہ طور پر، قبر کا بھی خفیہ رہنا ایسا راز ہے جو اپنے اندر کئی پیغام اور درس لیے ہوئے ہے۔ اگرچہ خود جناب فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے ایسے وصیت کی، لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں ایسی وصیت کرنا پڑی؟ کیا جو شخص خلافت کا دعویدار تھا، وہ آپؑ کے جنازہ پر نماز پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا؟
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے وصیت کی تھی کہ آپؑ کو رات کے وقت دفن کیا جائے اور جنہوں نے آپؑ پر ظلم کیا ہے ان میں سے کسی کو اطلاع نہ دی جائے اور یہ بہترین ثبوت ہے شیعہ کے پاس اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی مظلومانہ طریقہ سے شہید ہوئیں اور جنہوں نے آپؑ پر ظلم کیا تھا، آپؑ ان سے ناراض تھیں۔
خفیہ دفن اہلسنت علماء کی نظر میں: اہلسنت کے علامہ محمد ابن اسماعیل بخاری نے لکھا ہے: "وَعَاشَتْ بَعْدَ النبي صلي الله عليه وسلم سِتَّةَ أَشْهُرٍ فلما تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا ولم يُؤْذِنْ بها أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّي عليها"[1]، "فاطمہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے زندہ رہیں، تو جب ان کا انتقال ہوا، ان کو ان کے شوہر علی نے انہیں رات کے وقت دفن کیا اور ابوبکر کو اطلاع نہ دی اور خود ان پر نماز پڑھی"۔
مسلم نے اپنی کتاب صحیح میں لکھا ہے: "فلما تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيُّ بن أبي طَالِبٍ لَيْلًا ولم يُؤْذِنْ بها أَبَا بَکْرٍ وَصَلَّى عليها عَلِيٌّ"[2]، "جب فاطمہ کا انتقال ہوا تو ان کے شوہر علی ابن ابی طالب نے ان کو رات کے وقت دفن کیا اور ابوبکر کو اطلاع نہ دی اور ان پر علی نے نماز پڑھی"۔
علامہ اہلسنت ابن قتیبہ نے لکھا ہے: "وقد طالبت فاطمة رضي الله عنها أبا بكر رضي الله عنه بميراث أبيها رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما لم يعطها إياه حلفت لا تكلمه أبدا وأوصت أن تدفن ليلا لئلا يحضرها فدفنت ليلا "[3]، "فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اپنے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کا مطالبہ کیا، تو جب ابوبکر نے ان کو میراث نہ دی تو فاطمہ نے قسم کھائی کہ ہرگز ابوبکر سے بات نہیں کریں گی اور وصیت کی کہ ان کو رات کے وقت دفن کیا جائے تا کہ ابوبکر ان کے جنازہ پر نہ آئے، لہذا انہیں رات کے وقت دفن کیا گیا"۔
اہلسنت کے علامہ ابن بطّال نے شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے: " اجاز اکثر العلماء الدفن باللیل... و دفن علىُّ بن ابى طالب زوجته فاطمه لیلاً، فَرَّ بِهَا من ابى بکر ان یصلى علیها، کان بینهما شىء "[4]، "اکثر علماء نے رات کے وقت دفن کرنے کی اجازت دی ہے... اور علی ابن ابی طالب نے اپنی زوجہ فاطمہ کو رات کے وقت دفن کیا تھا تا کہ ابوبکر ان پر نماز نہ پڑھے، (کیونکہ) ان دونوں کے درمیان کوئی حادثہ پیش آیا تھا"۔
ابن ابی الحدید نے جاحظ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: "و اما اخفاء القبر، وکتمان الموت، وعدم الصلاه، وکل ما ذکره المرتضى فیه، فهو الذی یظهر ویقوی عندی، لان الروایات به اکثر واصح من غیرها، وکذلک القول فی موجدتها وغضبها"[5]، "فاطمہؑ کی قبر کو مخفی کرنا اور موت کو چھپانا اور ابوبکر اور عمر کا نماز جنازہ نہ پڑھنا اور جو کچھ سید مرتضی (جو چوتھی صدی کے نامور شیعہ علامہ تھے) نے کہا ہے، وہ میری نظر میں واضح اور مضبوط ہے، کیونکہ اس سلسلہ میں روایات، دیگر روایات سے تعداد کے لحاظ سے زیادہ اور زیادہ صحیح ہیں اور نیز فاطمہؑ کی شیخین (ابوبکر و عمر) سے ناراضگی اور غضب بھی دیگر نظریات سے زیادہ معتبر ہے"۔
نیز ابن ابی الحدید نے جاحظ سے نقل کیا ہے: "وظهرت الشكية، واشتدت الموجدة، وقد بلغ ذلك من فاطمة (عليها السلام) أنها أوصت أن لا يصلي عليها أبوبكر"[6]، "اور فاطمہ (علیہاالسلام) کی شکایت اور ناراضگی اس حد تک پہنچ گئی کہ آپؑ نے وصیت کی کہ ابوبکر آپؑ پر نماز نہ پڑھے"۔
ابن ابی الحدید نے یہ بھی لکھا ہے: "بل یقع الاحتجاج بذلک علی ما وردت به الرّوایات المستفیضة الظاهرة الَّتی هی کالتَّواتر، انَّها اوصت بان تدفن لیلا حتّی لایصلّی الرّجلان علَیها و صرَّحتْ بذلک و عهِدت فیهِ... قالت: فإني أنشدك الله ألا يصليا على جنازتي ولا يقوما على قبري"،[7] "بلکہ مستفیضہ روایات کے ذریعے جو تواتر کی حد تک ہیں اور ان کی دلالت ظاہر ہے، یہ دلیل پیش کی جاسکتی ہے کہ فاطمہ نے وصیت کی کہ آپ کو رات کے وقت دفن کیا جائے تا کہ وہ دو مرد آپ پر نماز نہ پڑھیں اور آپ نے اس وصیت کو واضح طور پر بتایا اور اس پر عمل کرنے کا عہد لیا... آپ نے فرمایا: میں آپ (علی) کو اللہ کی قسم دیتی ہوں کہ وہ دونوں میرے جنازے پر نماز نہ پڑھیں اور میری قبر پر کھڑے نہ ہوں"۔
حضرت فاطمہ زہراؑ کا غضبناک ہونا، اہلسنت علماء کی نظر میں: بخاری نے اپنی کتاب صحیح کے دو مقامات پر (کتاب فرض الخمس اور کتاب المغازی) حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا ابوبکر پر غضبناک ہونا اور رات کو دفن ہونا، بیان کیا ہے:
۱۔ فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ[8]"…، "فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوئیں اور ابوبکر سے رخ موڑ لیا اور آپؑ نے مسلسل اس سے رخ موڑے رکھا یہاں تک کہ وفات پاگئیں"۔
۲۔ "فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ، فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ، وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا"...[9]، "فاطمہ ابوبکر پر اس کے کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے غضبناک ہوئیں اور اس سے رخ موڑ لیا اور اس سے بات نہ کی یہاں تک کہ وفات پاگئیں اور آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے زندہ رہیں، تو جب آپ کی وفات ہوئی تو آپ کے شوہر علی نے آپ کو رات کے وقت دفن کیا اور آپ کے بارے میں ابوبکر کو اطلاع نہ دی اور آپ پر نماز پڑھی"…۔
علامہ اہلسنت بدرالدین عینی نے صحیح بخاری کے اس فقرہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "(وَلم يُؤذن بهَا أَبَا بكر) أَي: وَلم يعلم بوفاتها أَبَا بكر"، یہ جو بخاری نے کہا ہے: "وَلم يُؤذن بهَا أَبَا بكر" اس کا مطلب یہ ہے کہ علی نے ابوبکر کو فاطمہ کی وفات کی اطلاع نہ دی۔ اور یہ جو بخاری نے کہا ہے: (وَصلى عَلَيْهَا) أَي: صلى عَليّ، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، على فَاطِمَة[10]، اس کا مطلب یہ ہے کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فاطمہ پر نماز پڑھی۔
نتیجہ: اہلسنت علماء کے اقرار اور اعتراف کے مطابق سرور کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو آپؑ کی وصیت کے مطابق رات کے وقت خفیہ طور پر دفن کیا گیا اور آپؑ کی اس وصیت کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے آپؑ پر ظلم و ستم ڈھایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]صحيح بخاري، ج 4، ص 1549، ح3998۔
[2] صحيح مسلم، تحقيق : محمد فؤاد عبد الباقي ) ج 3، ص 1380، حديث 1759۔
[3] تأويل مختلف الحديث، ابن قتيبه الدينوري، تحقيق: محمد زهري النجار، ج 1، ص 300۔
[4] ابن بطال البکری القرطبی، شرح صحیح البخاری، ج 3، ص 325.
[5] شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، جلد 16، صفحه 170۔
[6] شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج16، ص 157۔
[7] شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج 16، ص 281۔
[8] صحيح البخاري، ج 3، ص 1126، ح2926، باب فَرْضِ الْخُمُسِ۔
[9] صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوة خیبر، ح4240۔
[10] عمدة القاري شرح صحيح البخاري، بدر الدين العينى، ج17، ص259۔
Add new comment