چکیده: امام زمان عج کے خیمہ میں آنے کے لئے کچھ شرائط ۔
امام مھدی (عج) کے خیمہ میں حاضر ہونے کی شرایط
امام مھدی کے خیمہ میں حاضر ہونے اور تا دم آخر اس میں رہنے کےلیے چند ایک خصوصیات اور شرایط کا ہونا بہت اہمیت رکھتا ہے ۔
1: امام کی معرفت
ایک اہم اور بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی اور دین میں صراط مستقیم پر چلنے کےلیے ضروری ہے کہ اپنے رھبر اور پیشوا کو پہچانتا ہو، امام کی صحیح معرفت ہی ان کے خیمہ میں حاضر ہونے کی بنیادی شرط ہے ۔
فضیل بن یسار کہتا ہے : میں نے امام باقر علیہ السلام سے سنا کہ فرمایا :اگر کوئی مرجائے اور امام نہ رکھتا ہو تو وہ جاھلیت کے لوگوں کی موت مرا ہے اور جو بھی مر جائے اور اپنے امام کو پہچانتا ہو تو اس امر(ظھور اور فرج)کی تاخیر اور تعجیل اس کو نقصان نہیں دے سکتا جو بھی مر جائے اور اپنے امام کی معرفت رکھتا ہو وہ اس شخص کی مانند ہے جو امام قائم کے ساتھ اس کے خیمہ میں حاضر ہو۔1
فضیل بن یسار سے نقل ہے کہ :میں نے امام صادق علیہ السلام سے اس آیت کے بارے میں پوچھا : (اس دن لوگوں کے ہر گروہ کو ان کے اماموں کے ساتھ بلائیں گے ۔)2 تو امام علیہ السلام نے فرمایا :اے فضیل ! امامت کو پہچانو کیونکہ جب بھی امامت کی معرفت ہوگی تو (ظھور میں )تاخیر اور تعجیل کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی جو بھی اپنے امام کی پہچان رکھتا ہو اور صاحب الامر (امام زمانہ عج )کے ظھور سے پہلے مر جائے تو اس شخص کی طرح ہے کہ جو لشکر امام میں شامل ہو بلکہ اس شخص کی طرح ہے جو امام کے پرچم کے سائے میں بیٹھا ہو ۔3
عمر بن ابان کہتا ہے : میں نے امام صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا : علامت اور نشانی (یعنی امامت )کو پہچانو کیونکہ جب اس کو پہچان لوگے تو (ظھور) کا تقدم اور تاخر تجھے کوئی نقصان نہیں دے گا خداوندمتعال فرماتا ہے : (اس دن لوگوں کے ہر گروہ کو ان کے اماموں کے ساتھ بلائیں گے ۔)4 پس جس نے بھی اپنے امام کو پہچان لیا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو امام منتظر عج کے خیمہ میں موجود ہو ۔5
معرفت امام یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ حجت خدا اور ان کی اطاعت واجب ہے اور ان کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اسے انجام دینے کی کوشش میں لگا رہے ۔
2:ولایت میں استقامت
امام کے پیروکاروں کی ایک اہم ترین خصوصیت اھل بیت کے راستے میں استقامت اور پایداری ہے جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے سچے پیروکاروں نے دکھائی ،چاہے میدان جنگ میں تلوار اٹھا کر یا اسیری کی حالت میں گفتار اور رفتار کے اسلحہ سے اپنی استقامت اور پایداری کو ثابت کیا ۔
محمد بن مسلم کہتا ہے :امام صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر پوچھی :(وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارا پروردگار خدا ہے اور اس پر قائم رہے اور استقامت دکھائی )6 امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :ایک کے بعد دوسرے امام (کی امامت ) پر قائم رہے "فرشتے ان پر اس پیغام کے ساتھ نازل ہوں گے کہ ڈرو مت اور غم نہ کرو تمہیں اس جنت کی بشارت ہو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ 7
3: حسن خلق
ابوبصیر امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:ہمارے لیے مستقبل میں ایک حکومت ہے کہ جب خداوندمتعال چاہے گا ہمارے لیے میسر فرمائے گا ۔پھر فرمایا :جو بھی اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ امام قائم عج کے جانثاروں میں اس کا شمار ہو تو وہ انتظار کرے اور اسی انتظار میں تقوی بھی اختیار کرے اور اچھے اخلاق کا مالک بھی بنے ۔
اچھا اخلاق دین کی تعلیمات میں سے ایک اہم سبق ہے حسن خلق کا معنی یہ ہے کہ پسندیدہ صفات کو اپنایا جائے اور ہر جگہ ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے ۔
4:دینداری اور ولایت
امام کے جانثاروں کی ایک اور اہم خصوصیت اور صفت دین کے احکام پر عمل پیرا ہونا ہے واجبات کی ادائیگی اور حرام چیزوں سے اجتناب ،ان کاموں سے بھی دوری جو جس میں شک ہو یا وہ کام جو انسان کو گمراھی اور تباہی کی طرف لاتے ہیں ۔ ایک شیعہ اور آئمہ کے پیروکار کی ذمہ داریوں میں سے یہ ایک ہے ۔
جابر کہتا ہے :امام باقر علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا :اے جابر ، کیا جو شخص شیعہ ہونے کا دعوی کرتا ہے کیا اس کے لیے صرف ہماری محبت کا دم بھرنا کافی ہے ؟خدا کی قسم وہ ہمارا شیعہ نہیں سوائے اس کے خدا کی اطاعت کرے ۔ اے جابر ہمارے شیعہ صرف وہ ہیں جن میں یہ خصوصیات پائی جاتی ہوں ۔ خضوع و خشوع اور امانت داری،ہمیشہ خدا کی یاد میں رہنا ،نماز ، روزہ ، ماں باپ سے اچھا سلوک ،فقیر اور محتاج ہمسائے ،قرض داروں اور یتیموں سے اچھا برتاو،صداقت اور قرآن کی تلاوت اور زبان سے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک اور اپنے رشتہ داروں میں امین سمجھا جاتا ہو ۔
جابر !کہتا ہے کہ اے فرزند رسول آج ہمیں ایسا کوئی نظر نہیں آتا جس میں یہ صفات پائی جاتی ہوں ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا : اے جابر! مختلف راستوں پر چلنا چھوڑ دو ۔ کیا ایک شخص کےلیے یہی کافی ہے کہ کہے وہ علی علیہ السلام سے محبت کرتا ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے لیکن دینی کاموں کو انجام نہ دے؟ پس اگر کہے کہ میں رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں (پیامبر تو علی سے بھی افضل ہیں ) اور پھر ان کی سنت پر عمل بھی نہ کرے تو یہ پیغمبر کی محبت اسے کوئی فائدہ پہچانے والی نہیں ہے پس خدا سے حیا کرو اور جس چیز کے کرنے کا خداوندمتعال نے حکم دیا انجام دو ۔خداوندمتعال کی کسی کے ساتھ رشتہ داری نہیں ہے ۔خداوندمتعال کے نزدیک محبوب ترین شخص وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی اور مطیع ہو ۔
اے جابر !خدا کی قسم خدا کی اطاعت کے بغیر نہ ان کا تقرب حاصل ہوسکتا ہے اور نہ جہنم سے رہائی اور کوئی بھی خدا پر حجت نہیں رکھتا جو بھی خداوندمتعال کا مطیع ہے وہ ہمارا شیعہ ہے اور جو خدا کا نافرمان ہے وہ ہمارا دشمن ہے ہماری ولایت سوائے تقوا کے حاصل نہیں ہو سکتی ۔8
منابع
1۔ (کافی ج1،ص371)
2۔ (اسراء/71)
3۔ (کافی ،ج1ص371)
4. (اسراء/71)
5. (کافی،ج1،ص372)
6. (فصلت/30)
7. (کافی ، ج1،ص220)
8. (کافی ،ج2،ص74)
Add new comment