چکیده: شیعہ سنی علماء کا اتفاق ہے کہ بنت رسول اس دنیا سے طبیعی موت سے نہیں گئیں بلکہ ان مظالم کی وجہ سے جو ان پر بابا کے رخصت ہونے کے بعد ڈھائے گئے۔
علت شهادت حضرت زهراء علیھا السلام
یاد رہے کہ فاطمہ علیھا السلام کسی سخت بیماری میں مبتلا نہیں تھیں بلکہ وہ رنج و سختی کہ جس نے ان کے جسم کو چور چور کر دیا تھا، وہ مظالم تھے جو ان پر بابا کے بعد ڈھائے گئے ایک طرف بابا کی جدائی اور دوسری طرف ان پر کئے گئے ستم ، ہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ کوئی عام مظالم نہیں تھے بلکہ رسول کی بیٹی کو تازیانے مارے گئے ان کے جسم کو زخمی کیا گیا بچہ ساقط کر دیا گیا، یہاں تک کہ روایت میں ہے کہ طمانچے بھی مارے گئے، یہ وہ مظالم تھے جن کی وجہ سے رسول کی لاڈلی زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکیں۔
ان دردناک مظالم نے بالآخر شھادت تک پہنچا دیا ۔
حضرت امام حسن مجتبى عليهالسلام ایک مجلس میں معاویہ کے حضور میں مغیرہ بن شعبہ سے خطاب کرتے ہیں : (انت الذى ضربت فاطمة بنت رسولاللَّه صلى اللَّه عليه و آله حتى ادميتها و القت ما فى بطنها...)
تم نے میری ماں کو مجروح کیا یہاں تک کہ ان کے بچے کو ساقط کر دیا ۔[1]
حضرت امام صادق عليه السلام، علت بيمارى و شهادت فاطمه عليهاالسلام کے بارے فرماتے ہیں:
و كان سبب وفاتها ان قنفذا مولى الرجل لكزها بنعل السيف بامره فاسقطت محسنا، و مرضت من ذلك مرضا شديدا[2]۔
شهادت فاطمه کا سبب یہ تھا كه قنفذ (خلیفہ دوم کا غلام) نے تلوارکے دستے کے ساتھ اتنا مارا کہ میری ماں کا بچہ ساقط ہو گیا اور بستر بیماری پر آگئیں ۔
زہرا مرضیہ کہتی ہیں اے اسماء جب تک میری مناجات کی آواز آتی رہے تو سمجھ لینا میں زندہ ہوں، جب آواز آنا بند ہو جائے تو سمجھ لینا فاطمہ اس دنیا میں نہیں رہی۔
اسماء آوازیں دیتی رہیں مگر کوئی جواب نہیں آیا، روتی ہوئی باہر آئی کیا دیکھا حسن و حسین آ رہے ہیں، حسنین نے پوچھا اسماء ہماری ماں کہاں ہیں، اسماء خاموش رہی اور جواب نہ دیا حسنین کمرے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھا کہ ماں دنیا سے جا چکی ہیں۔ وا محمداہ ، وا علیا،امام حسن نے خود کو ماں پر گرایا اور رو رو کر کہا اماں جواب دو میں تمھارا حسن ہوں، حسین پاؤں سے لپٹ گئے، چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے اماں اماں اماں میں حسین ہوں اماں جواب دو ۔
اسماء کہتی ہیں بیٹا جاؤ بابا علی کو بتاؤ ماں دنیا سے رخصت ہو گئیں، دونوں بچے دوڑتے ہوئے آئے، بابا ہماری اماں اب اس دنیا میں نہیں رہی، علی جیسے بہادر نے جب یہ خبر سنی تو منہ کے بل زمین پر گرے اور بیہوش ہو گئے جب ہوش آیا تو کہا فاطمہ نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا ہائے علی تنہا ہو گیا وا محمداہ ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ سیدہ نے اسماء سے کہا میرے لیے پانی لاؤ تاکہ غسل کروں اور کہا اے اسماء مجھے تنہا چھوڑ دو ، دیکھو جب تک میری مناجات کی آواز آتی رہے تو سمجھ لینا میں زندہ ہوں اور جب آواز آنا بند ہو جائے تو سمجھ لینا فاطمہ اس دنیا میں نہیں رہی۔
اسماء کہتی میں نے سنا سیدہ کہتی ہیں خدایا بحق محمد مصطفی و بحق علی مرتضی و بحق حسن وحسین ہمارے چاہنے والوں پر رحم فرما، ان کے گناہوں کو معاف فرما اور انہیں بہشت عطا فرما۔ [3]
اسماء کہتی ہیں کچھ دیر کے بعد آواز آنا بند ہو گئ بلکہ یوں کہوں کہ شیعوں کے لیے دعا کے دروازے بند ہو گئے ۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
منابع
[1] احتجاج طبرسى، ج 1، ص 414- بحارالانوار، ج 43، صص 197، ح 28- سفينة، ج 2، ص 339.
[2] عوالم، ج 11، ص 504- بحار، ج 43، ص 170، ح 11.
[3]وفاه فاطمة الزهراء/ 78.
Add new comment