ویسے تو ائمہ اہل بیتؑ میں سے ہر ایک کی زندگی اپنے اندر تجلیات الہیٰ اور سامان حیرت دونوں سے عبارت ہے لیکن زیادہ حیرت ان ائمہ کے بارے میں ہوتی ہے، جنہوں نے اپنی مختصر اور رکاوٹوں سے بھری ہوئی زندگی میں منصب ہدایت کو نبھایا۔ انہی میں سے حضرت امام علی نقی علیہ السلام ہیں، جو امام محمد تقی علیہ السلام کے فرزند گرامی قدر اور بارہ ائمہ میں سے دسویں پیشوا ہیں۔
زیادہ حیرت اس وقت ہوتی ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ دس برس متوکل جیسے ظالم و سفاک عباسی حاکم کی قید میں رہے اور بعد میں بھی انھیں ان کے گھر میں نظر بند کردیا گیا ، شاید یہی وجہ ہے کہ بعض علماء نے جن میں صاحب تذکرہ الخواص سبط ابن جوزی بھی شامل ہیں، انہوں نے قید کا زمانہ بیس برس سے زیادہ لکھا ہے۔ راقم کی رائے ہے کہ انھوں نے نظر بندی کے دور کو بھی بجا طور پر قید و بند کے زمانے میں شامل کیا ہے۔
امام علی نقی ابھی چھے برس کے ہی تھے کہ آپ کے والد گرامی امام محمد تقی علیہ السلام کو جواں عمری میں شہید کردیا گیا ، آپ کا دور امامت 220ھ سے 254ھ تک رہا اور پھر معتزباللہ عباسی نے اپنے کارندوں کے ذریعے زہر دے کر آپ کو شہید کردیا۔
اگرچہ آپ کی جوانی کا زیادہ تر حصہ قید و بند میں گزرا، تاہم آپ کو جتنا موقع ملا علوم و معارف اسلامی کی ترویج کے لیے اور مسلمان معاشرے کو کلامی انحرافات سے بچانے کے لیے راہنمائی اور ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا۔
شیخ طوسی نے آپ کے اہم شاگردوں کی تعداد ایک سو پچاسی لکھی ہے، جن میں فضل بن شاذان، حسین بن سعید اہوازی، ایوب بن نوح، ابو علی (حسن بن راشد) حسن بن علی ناصر کبیر، عبد العظیم حسنی اور عثمان بن سعید اہوازی قابل ذکر ہیں۔
امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کو تبلیغ کے لیے کو مواقع میسر آئے وہ بعد میں کسی امام کو میسر نہ آسکے ، پابندیاں اور رکاوٹیں بڑھتی چلی گئیں ، ان دونوں ائمہ کو ایسا دور میسر آیا جو کسی اور امام کو میسر نہ ایا ، ان ائمہ کے دور میں بنو امیہ اور بنو عباس کی باہم رسہ کشی اپنے عروج پر پہنچ گئی جو بنو عباس کی کامیابی پر منتج ہوئی۔
اس دوران میں جو فرصت ائمہ اہل بیت علیہم السلام کو میسر آئی وہ ہمارے لیے ایک عظیم سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہے ، امام علی نقی علیہ السلام جن پابندیوں اور مشکلات سے گزرے اس کی طرف کچھ اشارہ ہم نے سطور بالا میں کیا ہے۔ اس دور میں مسلمانوں کے نام نہاد مرکز خلافت کی ماہیت اور حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہم ایک واقعہ اپنے قارئین کی خدمت میں نقل کرتے ہیں ۔
متوکل نے ایک روز امام علی نقی علیہ السلام کو دربار شاہی میں طلب کیا، امام علی نقی علیہ السلام پہنچے تو دربار میں شراب کے دور چل رہے تھے ، طرب و نشاط کی محفل تھی ، خدا سے بے خبر بادشاہ کی سرکشی اور بے غیرتی ہر طرح کی حدود سے ماوراء ہوچکی تھی ، اس نے امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں جام بڑھا کر کہا کہ پیجئے! کیسے ممکن تھا کہ جس سلسلہ عصمت کی شان میں "یطھرکم تطھیرا" کی آیت نازل ہوئی ہے اس کا کوئی نمائندہ اس دعوت کی جانب اعتناء کرتا۔ آپ کو بہت تکلیف ہوئی، آپ نے فرمایا " میرا اور میرے آباؤ اجداد کا خون اور گوشت اس سے کبھی مخلوط نہیں ہوا " مگر وہ ظالم کہاں باز آنے والا تھا، کہنے لگا: اچھا پھر کچھ گا کر ہی سنا دیں تو جواباً آپ نے فرمایا: "اس فن سے بھی میں واقف نہیں۔" آخر اس نے کہا کہ کوئی شعر ہی سنا دیں۔ آپ حلم کا کوہ گراں اور عزت و وقار کا مینارِ بلند بنے کھڑے تھے۔ آپ نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور مجلس نشاط کو مجلس ہدایت میں بدل دیا۔ آپ کے بیان کردہ اشعار اور ان کا مفہوم حسب ذیل ہے، جسے مسعودی نے مروج الذھب میں بھی نقل کیا ہے۔
بَاتُوا عَلَى قُلَلِ الْأَجْبَالِ تَحْرُسُهُمْ *** غُلْبُ الرِّجَالِ فَلَمْ تَنْفَعْهُمُ الْقُلَلُ
وَ اسْتَنْزَلُوا بَعْدَ عِزٍّ مِنْ مَعَاقِلِهِمْ *** وَ اسْكِنُوا حُفَراً يَا بِئْسَمَا نَزَلُوا
نَادَاهُمْ صَارِخٌ مِنْ بَعْدِ دَفْنِهِمْ *** أَيْنَ الْأَسَاوِرُ وَ التِّيجَانُ وَ الْحُلَلُ
أَيْنَ الْوُجُوهُ الَّتِي كَانَتْ مُنْعِمَةً *** مِنْ دُونِهَا تُضْرَبُ الْأَسْتَارُ وَ الْكِلَلُ
فَأَفْصَحَ الْقَبْرُ عَنْهُمْ حِينَ سَاءَلَهُمْ *** تِلْكَ الْوُجُوهُ عَلَيْهَا الدُّودُ تَقْتَتِلُ
قَدْ طَالَ مَا أَكَلُوا دَهْراً وَ قَدْ شَرِبُوا *** وَ أَصْبَحُوا الْيَوْمَ بَعْدَ الْأَكْلِ قَدْ أُكِلُوا
ترجمہ: "رات انھوں نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہرے دیتے گزاری، مردوں کو شکست ہوئی اور ان کی تعداد سے انھیں کوئی فائدہ نہ پہنچا اور وہ عزت کے بعد اپنے قلعوں سے نیچے اتر آئے۔ پس اس گڑھے میں بسو جنھوں نے پستی اختیار کی۔ ان کے دفن کے بعد ایک چنگھاڑ انھیں پکارتی ہے۔ تمھارے کڑے، تاج اور لباس کہاں ہیں۔ کہاں ہیں، وہ چہرے جو مہربان تھے۔ ان پر حجاب کبھی غبار نہ آنے دیتا تھا۔ ان سے سوال کیا گیا تو قبر نے اس کی وضاحت کی۔ یہ چہرے کیڑوں کا مسکن بن گئے۔ اس کے سبب جو یہ ایک زمانے تک کھاتے اور پیتے رہے اور آج یہ خود غذا بن رہے ہیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
مدرس تبریزی، محمدعلی ، ریحانة الادب فی تراجم المعروفین بالکنیه او اللقب ج ۵ ، ص ۱۷۴ ۔
Add new comment