معصومین علیہم السلام کے بیانات ہمارے لیے جہاں مشعل راہ ہیں وہیں حقیقت کے ترجمان بھی؛اپنی زندگی کو معصومین علیہم السلام کے بتائے فرامین کے قالب میں ڈھالنے کے لیے مندرجہ ذیل بیانات ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
(۱) وَ اِعْلَمْ أَنَّ اَلْخَلاَئِقَ لَمْ يُوَكَّلُوا بِشَيْءٍ أَعْظَمَ مِنَ اَلتَّقْوَى فَإِنَّهُ وَصِيَّتُنَا أَهْلَ اَلْبَيْتِ؛لوگوں کو تقویٰ سے زیادہ کسی چیز کی تاکید نہیں کی گئی اس لئے کہ یہ ہم اھل بیت(ع) کی وصیت ہے۔[وسائل الشیعة،جلد 17،صفحه 207]
(۲) وَ إِنَّمَا قَلْبُ اَلْحَدَثِ كَالْأَرْضِ اَلْخَالِيَةِ مَا أُلْقِيَ فِيهَا مِنْ شَيْءٍ قَبِلَتْهُ فَبَادَرْتُكَ بِالْأَدَبِ قَبْلَ أَنْ يَقْسُوَ قَلْبُكَ وَ يَشْتَغِلَ لُبُّكَ؛ حضرت علی علیہ السلام نے امام حسنؑ سے فرماتے ہوئے کہا: بچے کا دل خالی زمین کے مانند ہے جو بھی اسے تعلیم دی جائے گی وہ سیکھے گا لہذا میں نے تمہاری تربیت میں بہت ہی مبادرت سے کام لیا قبل اس کے کہ تمہارا دل سخت اور فکر مشغول ہو جائے ۔[وسائل الشیعة،جلد 21،صفحه 478]
(۳) اَلْعَافِيَةُ عَشَرَةُ أَجْزَاءٍ؛ تِسْعَةٌ مِنْهَا فِي اَلصَّمْتِ إِلاَّ بِذِكْرِ اَللَّهِ، وَ وَاحِدٌ فِي تَرْكِ مُجَالَسَةِ اَلسُّفَهَاءِ؛خیر وعافیت کے دس اجزاء ہیں ان میں سے نو اجزاء خاموش رہنے میں ہیں سوائے ذکر خدا کے اورایک جز بیوقوفوں کی مجلس میں بیٹھنے سے پرہیز کرنے میں ہے ۔[ الدرة الباهرة من الأصداف الطاهرة،جلد1،صفحه 19]
(۴) مَنْ نَصَبَ نَفْسَهُ لِلنَّاسِ إِمَاماً فَعَلَيْهِ أَنْ يَبْدَأَ بِتَعْلِيمِ نَفْسِهِ قَبْلَ تَعْلِيمِ غَيْرِهِ وَ لْيَكُنْ تَأْدِيبُهُ بِسِيرَتِهِ قَبْلَ تَأْدِيبِهِ بِلِسَانِهِ؛جو شخص اپنے کو لوگوں کی پیشوائی و رہبری کے لئے معین کرے اسکے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو تعلیم دینے سے پہلے خود تعلیم حاصل کرے ، اور آداب الٰہی کی رعایت کرتے ہوئے لوگوں کو دعوت دے ،قبل اس کے کہ زبان سے دعوت دے ( یعنی سیرت ایسی ہو کہ زبان سے دعوت دینے کی ضرورت نہ پڑے)۔[ أعلام الدین في صفات المؤمنین , جلد 1 , صفحه 92]
(۵) مَنْ كَانَتْ هِمَّتُهُ مَا يَدْخُلُ بَطْنَهُ كَانَتْ قِيمَتُهُ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ؛ہر وہ شخص جس کی تمام کوشش پیٹ بھرنے کے لئے ہے اسکی قیمت اتنی ہی ہے جو اس کے پیٹ سے خارج ہوتی ہے۔[ غرر الحکم و درر الکلم , جلد 1 , صفحه 641]
(۶) أَلاَ لاَ خَيْرَ فِي عِلْمٍ لَيْسَ فِيهِ تَفَهُّمٌ أَلاَ لاَ خَيْرَ فِي قِرَاءَةٍ لَيْسَ فِيهَا تَدَبُّرٌ أَلاَ لاَ خَيْرَ فِي عِبَادَةٍ لاَ فِقْهَ فِيهَا ؛آگاہ ہو جاؤ ! وہ علم کہ جس میں فہم نہ ہو اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے ، جان لو کہ تلاوت بغیر تدبر کے سود بخش نہیں ہے، آگاہ ہو جاؤ کہ وہ عبادت جس میں فہم نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔[ الکافي،جلد 1،صفحه 36]
(۷) مَا اَلْمُجَاهِدُ اَلشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اَللَّهِ بِأَعْظَمَ أَجْراً مِمَّنْ قَدَرَ فَعَفَّ؛وہ شخص جو جہاد کرے اورجام شہادت نوش کرے اس شخص سے بلند مقام نہیں رکھتا جو گناہ پر قدرت رکھتا ہو لیکن اپنے دامن کو گناہ سے آلودہ نہ کرے۔[ نهج البلاغة،جلد 1،صفحه 559]
(۸) اَلتَّوْبَةُ عَلَى أَرْبَعَةِ دَعَائِمَ نَدَمٍ بِالْقَلْبِ وَ اِسْتِغْفَارٍ بِاللِّسَانِ وَ عَمَلٍ بِالْجَوَارِحِ وَ عَزْمٍ أَنْ لاَ يَعُودَ؛حقیقت توبہ چار ستونوں پر استوار ہے: دل سے پشیمان ہونا، زبان سے استغفار کرنا ،اعضاء کے عمل کے ذریعے اور دوبارہ ایسا گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرنا۔[ بحارالأنوار،جلد 75،صفحه 81]
(۹) وَ لْيَخْزُنِ اَلرَّجُلُ لِسَانَهُ فَإِنَّ هَذَا اَللِّسَانَ جَمُوحٌ بِصَاحِبِهِ وَ اَللَّهِ مَا أَرَى عَبْداً يَتَّقِي تَقْوَى تَنْفَعُهُ حَتَّى يَخْزُنَ لِسَانَهُ؛انسان کو چاہیے کہ اپنی زبان کی حفاظت کرے اس لئے کہ یہ سرکش زبان اپنے صاحب کو ہلاک کر دیتی ہے خدا کی قسم ! میں نے کسی بندہ ٴمتقی کو نہیں دیکھا جس کو اس کے تقوی نے نفع پہنچایا ہو مگر یہ کہ اس نے اپنی زبان کی حفاظت کی ہو۔[ نهج البلاغة،جلد 1،صفحه 253]
(۱۰) لاَ تَجْعَلُوا عِلْمَكُمْ جَهْلاً وَ يَقِينَكُمْ شَكّاً إِذَا عَلِمْتُمْ فَاعْمَلُوا وَ إِذَا تَيَقَّنْتُمْ فَأَقْدِمُوا؛اپنے علم کو جہل میں اور یقین کو شک میں تبدیل نہ کرو۔ جب کسی چیز کے بارے میں علم ہو جائے تو اسی کے مطابق عمل کرو اور جب یقین کی منزل تک پہنچ جاؤ تو اقدام کرو۔[ نهج البلاغة،جلد 1،صفحه 524]
Add new comment