چکیده: امام زمانہ عج کے ظہور کی دعا ہماری افضل عبادت شمار ہوتی ہے ۔
انتظار فرج
اسلام میں مہم ترین عبادت انتظار فرج ہے,حضرت علی علیہ السلام پیغمبر خدا (ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا:«أَفْضَلُ الْعِبَادَةِ انْتِظَارُ الْفَرَجِ»[1]
افضل ترین عبادت انتظار فرج ہے ۔
امام زمان گذشتہ تمام امتوں کے موعود ہیں ، آپ کے ظہور سے زمین عدالت سے پر ہو جائے گی ، مفاتیحالجنان میں پڑھتے ہیں :
«السّلامُ علی المَهدیِّ الذّی وَعَدَ اللهُ عزَّوجلَّ بِهِ الأمَمَ، أن یَجمَعَ به الکَلِمَ و یَلُمُّ به الشَّعَثَ و یَملأَ بِهِ الأرضَ قِسطَاً و عَدلاً و یُمکِّنَ لَهُ و یُنجِزَ بِهِ وعدَ المُؤمنِینَ»[2]
سلام ہو مهدی پر، کہ جن کا خداوند متعال نے سب امتوں کو وعده دیا ہے تاکہ لوگوں کو اس طرح سے جمع کریں کہ ان میں کسی قسم کا تفرقہ نہ ہو اور انھیں کے وسیلہ سے زمین پر عدل قائم ہو گا، سب لوگ انھیں سے تمکین کریں گے اور ہاں خدا کا وعدہ مؤمنین کی عزت کے لیے پورا ہو کر رہے گا ۔
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جو بھی اپنے امام (عج) کے انتظار میں اس دنیا سے چل بسے وہ ایسے ہے جیسے وہ اپنے امام کے ساتھ ان کےخیمہ میں ہے اس کے بعد کچھ دیر خاموشی کے بعد فرمایا:بلکہ وہ ایسے ہے جیسے اپنے امام کے ساتھ جنگ میں شریک ہے پھر فرمایا: «لا وَالله إلاّ کمَن إستَشَهدَ مع رسولِ اللهِ»نا ، اللہ کی قسم وہ ایسے ہے جیسے رسول اللہ (ص) کے رکاب میں شہید ہوا۔[3]
امام صادق(ع) سے سوال ہوا کہ کیا قائم پیدا ہو چکے ہیں ؟
امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں اگر میں قائم کے زمانے میں ہوتا تو تمام عمر ان کی خدمت میں گزار دیتا.[4]
نتیجہ:انتظار فرج تمام عبادتوں میں سے افضل عبادت ہے اور ہر انسان کے لیے ضروری ہے وہ اپنے امام کے ظہور کے لیے دعا کرے اور مہم تو یہ ہے کہ انسان کا ہر لمحہ اپنے امام کے لیے ہونا چاہیے ،انسان ذرا سوچے کہ میں جو کام بھی کر رہا ہوں کیا میرے مولا راضی بھی ہیں یا نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
[1]. محمد بن بابویه قمی، شیخ صدوق؛ کمالالدین و تمامالنعمه، قم، دارالکتب الاسلامیه، 1395، چاپ دوم، ج1، ص287.
[2]. قمی، شیخ عباس؛ مفاتیحالجنان، مهدی الهی قمشهای، قم، ارم، 1382، ص1029.
[3]. قمی، شیخ عباس، نگاهی به زندگانی چهارده معصوم، محمد محمدی اشتهاردی، قم، ناصر، 1372، ص577.
[4]. مجلسی، محمدباقر؛ بحارالانوار، بیروت، مؤسسه الوفاء، 1404هق، ج51، 148، باب 6.
Add new comment