چکیده:فدک کا مختصر تعارف
فدک مدینہ کے اطراف میں تقریباً 140 کلو میٹر کے فاصلہ پر خیبر کے نزدیک ایک بستی تھی ۔
مسلمانوں نے جب ۷ ہجری کو خیبر کا قلعہ فتح کیا اور یہودیوں کی مرکزی قوت ٹوٹ گئی تو فدک کے رہنے والے یہودی صلح کے لیے پیغمبر اسلام کے پاس آئے اور انہوں نے اپنی آدھی زمینیں اور باغات پیامبر اسلام (ص) کےحوالے کردئیے اور آدھی اپنے پاس رکھی۔
اور پھر انہوں نے پیغمبر اسلام سے درخواست کی کہ وہ ان زمینوں میں کاشتکاری کریں اور اپنا حق الزحمہ لیں اور پیامبر نے بھی انہیں اجازت دے رکھی تھی ،ان زمینوں سے جو بھی آمدنی ہوتی تھی اسے پیامبر اسلام اپنے اوپر خرچ کرتے تھے جسے سورہ حشر نے واضح بیان کیا ہے ۔[1]
اور پھر پیغمبر اسلام (ص)نے وہ ساری زمینیں اپنی بیٹی حضرت فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا کوبخش دیں، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے سب مانتے ہیں ۔
اور ہاں جب یہ آیت نازل ہوئی :فاتِ ذَا القُربیٰ حَقّہُ [2] تو پیغمبر اسلام نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو فدک بخش دیا، اقطَعَ رَسُول الله فا طمةَ فَدَکاً [3]
ابوسعید خدری لکھتے ہیں : جب یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام (ص) نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلایا اور کہا : یا فاطمة لکِ فدک ، اے فاطمہ فدک تمہاری ملکیت ہے۔[4]
حاکم نیشاپوری نے بھی اس بات کی تائید کی ہے۔[5]
ابن ابی الحدید معتزلی نے بھی نہج البلاغہ کی شرح میں اس داستان کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور اسی طرح بہت سے مورخین نے بھی۔
ہاں وہ لوگ جو اس اقتصادی قوت کو حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کے قبضہ میں رہنے دینا اپنی سیاسی قوت کے لئے نقصان سمجھتے تھے،انہوں نے مصمم ارادہ کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے یاور وانصار کو ہر لحاظ سے کمزور اور گوشہ نشیں کردیں، جعلی حدیث نَحْنُ مُعَاشَرَ الاٴنْبِیَاءِ لَا نُورِّث (ہم گروہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے ، کے بہانے کر کے انہوں نے فدک اپنے قبضہ میں لے لیا اور باوجود اس کے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا قانونی طور پر اس پر حق رکھتی تھیں اور کوئی شخص ”ذو الید“(جس کے قبضہ میں مال ہو)سے گواہ کا مطالبہ نہیں کرتا،جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے گواہ طلب کئے گئے ، بی بی نے گواہ پیش کئے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے خود انہیں فدک عطا فرمایا ہے لیکن انہوں نے ان تمام چیزوں کی کوئی پرواہ نہیں کی، بعد میں آنے والے خلفا میں سے ایک نے جو اہل بیت علیہم السلام سے محبت کا اظہار کرتا تها ،اسنے فدک اکو لوٹا دیا تھا لیکن زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ دوسرے خلیفہ نے اسے چھین لیا تھا اور دوبارہ اس پر قبضہ کرلیا تھا، خلفائے بنی امیہ اور خلفائے بنی عباس نے بارہا ایسا ہی کیا ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت کے نامور محدث مسلم بن حجاج نیشاپوری نے اپنی مشہور و معروف کتاب ”صحیح مسلم“ میں جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا خلیفہ اول سے فدک کے مطالبہ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے، اور جناب عائشہ کی زبانی نقل کیا ہے کہ جب خلیفہٴ اول نے جناب فاطمہ کو فدک نہیں دیا تو بی بی ان سے ناراض ہوگئیں اور آخر عمر تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔[6]
-------------------------------------------------
حواله جات:
[1] سورہٴ حشر ، آیت ۷
[2] سورہٴ روم ، آیت ۳۸
[3] در منثور ، جلد ۴صفحہ ۱۷۷
[4] کنز العمال ، جلد ۲صفحہ ۱۵۸
[5] کتاب فدک صفحہ ۴۹
[6] صحیح مسلم، کتاب جہاد ، جلد ۳ ص۱۳۸۰ حدیث .5
Add new comment