اقدار مکتب کربلا

Sun, 04/16/2017 - 11:17

چکیده :ہم نے اس مقالے میں مکتب کربلا کی اقدار کو سید الشہداء علیہ السلام و شہدائے کربلا کی سیرت کی روشنی می بیان کرنے کی کوشش کی ہے، اور ذیل میں ان اقدار کو بیان کیا ہے۔توحید محور، عزت و حمیت ،طاغوت ستیزی ،ھدف کے حصول میں استقامت ،اور نظم و ضبط سے عبارت ہے

اقدار مکتب کربلا

توحید محور
انسان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ الله اس سے راضی رہے۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خطبات میں اپنی تحریک کو توحید محور قرار دیا چنانچہ آپ نے فرمایا کہ ہم اہلبیت کی رضا وہی الله کی مرضی ہے۔ اسی طرح آپ نے زندگی کے آخری لمحہ میں بھی الله سے یہی مناجات کی کہ پالنے والے! تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں۔ امام حسین علیہ السلام نے انسانیت کو توحید باوری اور توحید محوری کا پیغام دیا بقول شاعر،
توحید کی چاہت ہے تو پھر کربو بلا چل
ورنہ یہ کلی کھل کے کھلی ہے نہ کھلے گی
توحید ہے مسجد میں نہ مسجد کی صفوں میں
توحید تو شبیر کے سجدے میں ملے گی

مرکز عزت و حمیت
حضرت امام حسین علیہ السلام کا تعلق اس خاندان سے ہے، جو عزت و آزادی کا مظہر ہے۔ امام علیہ السلام کے سامنے دو راستے تھے، ایک ذلت کے ساتھ زندہ رہنا اور دوسرا عزت کے ساتھ موت کی آغوش میں سو جانا۔ امام نے عزت کو ذلت پر ترجیح دیتے ہوئے فرمایا، ابن زیاد نے مجھے تلوار اور ذلت کی زندگی کے بیچ لا کھڑا کیا ہے، لیکن میں ذلت کو قبول کرنے والا نہیں ہوں۔ آپ نے تاقیامت بشریت کو عزت سے جینے کا گُر سکھایا۔

طاغوت ستیزی:
امام حسین علیہ السلام کی تحریک طاغوتی طاقتوں کے خلاف تھی۔ اس زمانے کا طاغوت یزید بن معاویہ تھا کیونکہ امام علیہ السلام نے اس جنگ میں پیغمبر اکرم (ص) کے قول کو سند کے طور پر پیش کیا ہے کہ ”اگر کوئی ایسے ظالم حاکم کو دیکھے جو الله کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کررہا ہو، تو اس پر لازم ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے الله کی طرف سے سزا دی جائے گی۔

ھدف کے حصول میں استقامت:
جو چیز عقیدہ کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے، وہ اپنے ہدف پر آخری دم تک باقی رہنا ہے امام علیہ السلام نے عاشورا کی پوری تحریک میں یہ ہی کیا کہ اپنی آخری سانس تک اپنے ہدف پر باقی رہے اور دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے۔ امام علیہ السلام نے امت مسلمہ کو ایک بہترین درس یہ دیا کہ حریم مسلمین سے تجاوز کرنے والوں کے سامنے ہرگز نہیں جھکنا چاہیئے اور اسقامت و پائیداری کے ساتھ دشمنان دین کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔

نظم و ضبط:
حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنی پوری تحریک کو ایک نظام کے تحت چلایا۔ جیسے بیعت سے انکار کرنا، مدینہ کو چھوڑ کر کچھ مہینے مکہ میں رہنا، کوفہ و بصرے کی کچھ شخصیتوں کو خط لکھ کر انہیں اپنی تحریک میں شامل کرنے کے لئے دعوت دینا۔ مکہ، منیٰ اور کربلا کے راستے میں تقریریں کرنا وغیرہ۔ ان سب کاموںکے ذریعہ امام علیہ السلام اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔ عاشورا کے قیام کا کوئی بھی جز بغیر تدبیر کے پیش نہیں آیا۔ یہاں تک کہ عاشور کی صبح کو امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کے درمیان جو ذمہ داریاں تقسیم کی تھیں وہ بھی ایک نظام کے تحت تھیں۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
6 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 22