حضرت علی علیہ السلام کا فیصلہ

Sun, 04/16/2017 - 11:17

خلاصہ:

ماں کا اپنا بیٹا تسلیم کرنے سے انکار
اور حضرت علی علیہ السلام کا فیصلہ

حضرت علی علیہ السلام کا فیصلہ

ماں کا اپنا بیٹا تسلیم کرنے سے انکار
اور حضرت علی علیہ السلام کا فیصلہ

خلیفہ ثانی نے اپنی خلافت کے دوران ایک جوان کو اپنی ماں کے خلاف فریاد کرتے ہوئے دیکھا،پوچھنے پر اس جوان نے خلیفہ ثانی کو بتایا کہ میری ماں نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے اور اب میری فرزندی سے بھی انکار کر رہی ہے خلیفہ ثانی کے بلانے پر وہ عورت اپنے چار بھائیوں اور چالیس اہل قبیلہ کو لے آئی ، سب نے قسم کھا کر کہا کہ یہ عورت کنواری ہے اب جوان اس کو بدنام کرنے کے لیے اس پر تہمت لگاتا ہے خلیفہ ثانی نے اس جوان کو کوڑے لگانے کا حکم دیا، ابھی خلیفہ ثانی کے آدمی اس جوان کو کھینچ کر لے جا رہے تھے کہ راستے میں حضرت علی علیہ السلام مل گئے اس جوان نے حضرت علی علیہ السلام سے فریاد کی اور اسکی ماں نے پہلے کی طرح اپنے گواہوں کو پیش کیا اور وہی بیانات دہرائے اس پر حضرت علی علیہ السلام نے فریقین سے اقرار لیا کہ جو بھی فیصلہ وہ کریں گے وہ سب کو منظور ہوگا اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
میں نے اس عورت کا نکاح اس جوان سے کر دیا ہے اس کا مہر چارسو درھم ہے اور وہ میں ادا کروں گا چنانچہ وہ رقم اپنے غلام قنبر سے منگوا کر اس جوان کو دی اور کہا یہ رقم اس عورت کی گود میں ڈال دو ، جب یہ عجیب و غریب فیصلہ اس عورت نے سنا تو اس نے ایک عزیت ناک چیخ کے ساتھ فریاد کرتے ہوئے کہا :کیا آپ مجھ کو جھنم میں بھیجنا چاہتے ہیں ہاں یہ جوان میرا ہی بیٹا ہے ، اور  اس مقدمہ میں میری کوئی خطا نہیں ہے یہ سب کاروائی میرے بھائیوں کی ہے کہ جنھوں نے پہلے تو میری شادی ایک برے شخص سے کردی اور اب جب یہ بچہ جوان ہوا تو جائیداد کی خاطر اپنے خاندان سے الگ کرانے کا فیصلہ کیاہے اور مجھ کو مجبور کر کے یہ بیان دلوایا ہے ۔
اس فیصلہ پر حضرت عمر نے کہا :لولا علی لھلک عمر
’’یعنی اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ
مناقب ابن شھر آشوب،ج2،ص182 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 66