بے گناہ قاتل

Sun, 04/16/2017 - 11:17

چکیده:بے گناہ قاتل اور مولائے کائنات علی بن ابی طالب علیہ السلام کا فیصلہ

بے گناہ قاتل

ایک شخص کو ایک خرابہ میں لوگوں نے اس طرح پایا کہ اسکی دونوں آستینیں کہنی تک اوپر چڑھی ہوئی تھیں ہاتھ میں خون بھرا خنجر تھا اور اس کے سامنے ایک لاش خاک و خون میں لتھڑی ہوئی تڑپ رہی تھی لوگوں نے اس سے پوچھا : کہ کیا تو نے اس کو قتل کیا ہے ؟
تو اس نے اقرار کیا کہ ہاں میں نے اسے قتل کیا ہے ، لہذا اس کو قتل کرنے کی غرض سے لے کر چلے، ابھی مقتل تک نہیں پہنچے تھے کہ ایک مرتبہ ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا ٹہرو اور اس کے قتل میں جلدی نہ کرو۔
اسے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خدمت میں لے چلو ۔
جب اسے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خدمت میں لایا گیا تو  اس شخص نے اقرار کیا کہ اس کا قاتل میں ہوں اور یہ شخص بے گناہ ہے کہ جسے گرفتار کیا گیا ہے ۔
تب آپ نے اس شخص سے پوچھا : کہ تو نے کس لیے اقرار جرم کیا تھا؟
اس نے جواب دیا : کہ یا امیرالمؤمنین میں اس خرابہ میں گوسفند ذبحہ کر رہا تھا اور پیشاب کی حاجت ہوئی تو میں اس خرابہ میں آیا تو ایک آدمی کو دیکھا کہ جو اپنے خون میں تڑپ رہا تھا اتنے میں یہ لوگ وارد ہو گئے اور خون بھری چھری میرے ہاتھ میں دیکھی میرے علاوہ کوئی دوسرا خرابہ میں نہ تھا انہوں مجھ سے سوال کیا تو میں نے اقرار کر لیا ورنہ یہ مجھے اتنا مارتے کہ میں موت کی حد تک پہنچ جاتا میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا یہ سن کر آپ علیہ السلام نے فرمایا :
اس کو میرے بیٹے حسن ؑ کے پاس لے جاؤ وہ فیصلہ کریں گے جب امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں گئے تو آپ ؑ نے ارشاد فرمایا:
امیر المؤمنین ؑعلیہ السلام کی خدمت میں جا کر عرض کرو کہ اگرچہ قاتل نے ایک شخص کو مارا ہے لیکن اس نے ایک نفس کو ہلاکت سے بھی بچا لیا ہے اور خداوند متعال کا ارشادہے :
مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءتْهُمْ رُسُلُنَا بِالبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَلِكَ فِي الأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ  ۔[1]
اسی بنا پر ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی نفس کو .... کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کی سزا کے علاوہ قتل کرڈالے گا اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دے دی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دے دی اور بنی اسرائیل کے پاس ہمارے رسول کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے مگر اس کے بعد بھی ان میں کے اکثر لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہی رہے ۔
لہذا اس فیصلہ کا حکم یہ ہے کہ دونوں کو رہا کر دیا جائے اور مقتول کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے یہ فیصلہ سن کر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
ہاں فیصلہ یہی ہے جو میرے بیٹے حسنؑ نے کیا ہے ۔[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منابع

[1] سورہ مائدہ ،32
[2] بحار ،ج۹،ص498،طرق حکمیہ ،ص55۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
7 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 43