بعثت پیمبر ص کا بنیادی مقصد انسان کو اسکی اصلی فطرت کی طرف لوٹانا اور عقل کی محوریت میں اپنی ذمہداریوں کی طرف متوجہ کرنا ہے تاکہ انسانی کمالات کے ذریعے ضلالت کا مقابلہ کرسکے
2015 بعثت پیمبرص کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے رہبر معظم نے فرمایا:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے بارے میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا جائزہ لینے اور جنہیں بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہم عوام اور عالم اسلام کے لئے جو چیز قابل توجہ ہے وہ دو تین بنیادی نکات ہیں۔: ایک نکتہ تو وہی ہے جس کا ذکر حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے خطبہ میں کیا ہے۔ آپ نے پیغمبر اکرم (ص) اور عظیم انبیائے الہی کی بعثت کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرمایا: لِیَستَأدُوهُم مِیثاقَ فِطرَتِهِ وَ یُذَکِروهُم مَنسِىَ نِعمَتِهِ ... وَ یُثیروا لَهُم دَفائِنَ العُقول؛ (۱) انسانوں کو انسانی فطرت اور انسانی خصلت کی جانب جو شرف و عزت سے منسلک ہوتی ہے، لوٹائیں، اللہ کی فراموش کردہ نعمتوں کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائیں اور دفن کر دی جانے والی قوت عقل کو حرکت میں لائیں اور بیدار کریں۔
انسان عقل و خرد کی مدد سے ہی بعثت کے پیغام کا ادراک کر سکتے ہیں، پیغمبروں کے نورانی راستے کی دشواریوں اور سختیوں کا مسکراتے ہوئے سامنا کر سکتے ہیں اور انہیں عبور کر سکتے ہیں۔ عقل و فکر و خرد کی مدد سے ہی بشر، قرآنی تعلیمات و مفاہیم سے صحیح طور پر استفادہ کر سکتا ہے۔ اگر اسلامی معاشرہ اسی ایک حکم یعنی عقل و خرد کے استعمال کو اپنے درمیان رائج کر لے تو انسانی معاشرے کی بیشتر بڑی مشکلات خود بخود حل ہو سکتی ہیں، اسلامی معاشرے کے بیشتر مسائل کا ازالہ ہو سکتا ہے۔
آج آپ مشاہدہ کیجئے، کسی خطے میں اسلام کے نام پر بے گناہ انسانوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا جا رہا ہے، کسی علاقے میں اسلام کی وجہ سے مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ افریقہ میں کسی مرکز میں، کسی ایک ملک میں، کسی کو مسلمان ہونے کی وجہ سے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے، قتل کیا جاتا ہے اور کسی دوسری جگہ کچھ لوگ اسلام کے نام پر لوگوں کی بچیوں کو اغوا کر کے بھاگ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کا پیغام صحیح طرح سے مسلمانوں تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ ہم قرآن کو اور اسلام کو صحیح طریقے سے سمجھیں اور اپنی عقل و خرد کے پیمانے پر اور انسانی و اسلامی افکار کی روشنی میں پیغمبر اسلام (ص)کی تعلیمات کی گہرائیوں تک پہنچیں اور ان پیغامات کو سمجھیں۔
اگر ہم اسلام کے پیغام کی طرف سے غافل رہ جائیں گے تو قرآن کریم کہہ چکا ہے: وَ قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قَومِى اتَخَذوا هذَا القُرءانَ مَهجورا؛ (۲) جب ہم نے قرآن کو ترک کر دیا، قرآن کے مفاہیم و تعلیمات پر صحیح طریقے سے تدبر نہیں کیا، اگر ہم نے قرآنی مفاہیم کے گلدستے کو جو انسانی زندگی کے لئے مکمل لائحہ حیات ہے، صحیح سے نہ سمجھا تو ہم سے لغزش ہوگی اور پھر ہماری عقل قرآنی مفاہیم کا ادراک نہیں کر سکے گی۔
آج دنیا میں کچھ دشمن ہیں جو علی الاعلان اسلام کے خلاف بر سر پیکار ہیں، ان کی پہلی جنگی حکمت عملی اختلافات کی آگ بھڑکانا ہے۔ سب سے گہرے اختلاف اور سب سے خطرناک اختلاف عقیدے اور ایمان سے متعلق اختلافات ہوتے ہیں، تو آج دنیا میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف شمشیر برہنہ میں تبدیل کر دینے کے لئے استکباری طاقتوں کے ہاتھ ایمان و عقیدے سے متعلق باتوں کے ذریعے اشتعال انگیزی میں مصروف ہیں۔ ایک گروہ دوسرے گروہ کو کافر قرار دے رہا ہے، ایک جماعت دوسری جماعت پر تلوار تانے کھڑی ہے، برادران ایمانی ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے بجائے، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کے بجائے برادر کشی کے لئے دشمنوں سے تعاون اور ساز باز کر رہے ہیں۔ شیعہ سنی جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں، نسلی اور فرقہ وارانہ اشتعال اور تصادم کو ہر لمحہ ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ البتہ ان سرگرمیوں میں جو ہاتھ ملوث ہیں وہ جانے پہچانے ہاتھ ہیں۔ اگر عقل کی قوت اور فکر و آگاہی کی روشنی کو بروئے کار لایا جائے جس کا حکم ہمیں قرآن کریم نے بھی دیا ہے، تو دشمن کا ہاتھ ہمیں صاف نظر آ جائے گا اور دشمن کے عزائم ہمارے سامنے آ جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) نهجالبلاغه، خطبه نمبر ۱
(2) سوره فرقان، آیه ۳۰
منبع: http://www.leader.ir/ur/speech/
Add new comment