خلاصہ: اس مختصر مقالہ میں قبلے کی تبدیلی کا تاریخی پس منظر اور قبلے کی تبدیلی کے علل و اسباب بیان ہوئے ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خداوند عالم نے گذشتہ قوموں میں ہر قوم کے لیئے ایک خاص قبلہ معین کیا تھا تاکہ راز و نیاز کے وقت وہ اس کی سمت ہو کر دعا کریں اور دوسرے انحرافات سے محفوظ رہیں۔
اسی طرح خداوند عالم نے امت مسلمہ کے لیئے بھی ایک قبلہ معین فرمایا ہے،جو توحید کی نشانی ہے اور دین مبین اسلام کو دوسرے ادیان توحیدی سے متمایز کرتا ہے اور بندوں کی عبادت کو الھی رنگ اور ڈہنگ عطا کرتا ہے۔
اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس ہوا کرتا تھا اور اسی زمانہ میں بیت المقدس یھودیوں کا بھی قبلہ تھا، لھذا یھودی مسلمانوں کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ تمہارا کوئی الگ سے قبلہ نہیں ہے اس لئیے ہمارے قبلہ کی طرف عبادت کرتے ہو اور یہی دلیل ہے کہ ہم حق پر ہیں اور تم مسلمانوں سے افضل ہیں۔اس کے باوجود حکم الھی کو پیش نظر رکھتے ہوئے آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) نے مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے ۱۳ سال تک بیت المقدس کی سمت نماز ادا کی، اسکی وجہ یہ تھی کہ اسلام کی نظر میں بیت المقدس ایک مقدس سرزمین تھی بلکہ اسلام سے پہلے بھی بیت المقدس کا ایک خاص امتیاز و احترام تھا یہاں تک کہ اس مقدس مقام پر بہت سے عظیم انبیاء مبعوث کیے گئے اور یہ مقام انبیاء کی جائے ولادت اور وفات بھی قرار پایا۔
رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) ہجرت کے بعد بھی مدینہ منورہ میں اسی طرح بیت المقدس کو قبلہ بنا کر نماز ادا کرتے رہے یہاں کہ ۱۵ رجب سن ۲ ہجری میں خداوند عالم کی جانب کے یہ حکم ہوا کہ آج سے قبلہ کی سمت بدلی جا تی ہے اور بیت المقدس کے بجائے اب سے خانہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ مقرر کیا جاتا ہے (1) اور جس مسجد میں یہ الھی حکم آیا تھا ،اِس حکم کی وجہ سے اُس مسجد کا نام ’’مسجد ذوقبلتین‘‘ پڑ گیا۔
واضح رہے کہ خانہ کعبہ کو خداوند عالم نے زمیں کی پیدائش کے وقت سے ہی مبارک بنایا تھا اور خانہ کعبہ انبیاء الھی کی آمد و رفت کا مکان تھا۔ اس سلسلہ میں ارشاد رب العزت ہے إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنّاسِ لَلَّذی بِبَکَّةَ مُبارَکًا وَ هُدًی لِلْعالَمینَ(2) ’’ بے شک پہلا گھر جو لوگوں کے لیئے بنایا گیا وہ مکہ میں ہے وہ مبارک اور تمام جہان والوں کے لیئے ہدایت کا سبب ہے‘‘
قبلہ کی تبدیلی کے علل و اسباب:
جیسا کہ ذکر ہوا ، مسلمانوں کا پہلا قبلہ بیت المقدس تھا اور یھودی بھی پہلے سے بیت المقدس کو اپنا قبلہ مانتے تھے لھذا مسلمانوں کو طعنہ دیتے تھے اور یہ بات رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کو بہت ناگوار گذرتی تھی۔
بہرحال چونکہ خداوند عالم کی جانب سے بیت المقدس کو قبلہ قرار دینا ایک موقت امر تھا لھذا جب اس سے وابستہ مفادات حاصل ہو گئے تب قبلہ بدلنے کا حکم آیا اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کو بھی اس بات کا علم تھا۔اسلئے ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) اکثر رات کے وقت آسمان کی طرف دیکھتے تھے اور اس بات کے منتظر رہتے تھے کہ خداوند علام کی جانب سے کوئی راہ گشا فیصلہ آئے اور یھودیوں کی اس اذیت و ایذا سے چھٹکارا ملے،کچھ مدت بعد ایک دن خدا وند عالم کی جانب سے فیصلہ آیا کے آج سے ہم نےقبلہ بدل دیا ہے ۔ خدا نے فرمایا قَدْ نَری تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِی السَّماءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضاھا (3) ’’یہ تنہارا آسمان کی طرف منھ اٹھانا ہم دیکھ رہے ہیں،ہم اسی قبلہ کی طرف تمہیں پھیر دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو‘‘ ۔
یھودی اس ماجرے کو سن کر بہت افسردہ ہوئے اور اپنی پرانی عادت کے مطابق باتیں بنانا شروع کر دیں اور اعتراض میں کہنے لگے کیسےمسلمان ہیں ، اپنے گذشتہ نبیوں کا قبلہ چھوڑ دیا؟ اور اگر انکا پہلا قبلہ صحیح تھا تو بدلنے کی کیا ضرورت آن پڑدی؟ اور اگر دوسرا قبلہ صحیح ہے تو تیرہ سال اور کچھ مہینہ بیت المقدس کی طرف نماز کیوں پڑھی؟
رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کو فورا حکم ہوا کہ انسے کہہ دیجئے قل لله المشرق و المغرب یهدی من یشاء الی صراط مستقیم ’’مشرق اورمغرب اللہ کے لئے ہیں ،اللہ جس کو چاہے سیدھا راستہ دیکھا دے‘‘۔(4)
یہ ایک اہم اور واضح دلیل تھی یھودیوں کے مقابلہ میں،کہ بیت المقدس ہو یا خانہ کعبہ ہر چیز کا مالک خداوند کریم ہے۔
خداوند عالم تو کسی مکان کا محتاج نہیں ہے لھذا اگر قبلہ معین کیا گیا ہے تو وہ اس لیئے کہ تمام مسلمان اہک ہی سمت اور جہت میں نماز پڑھیں، اہم یہ ہے کہ ربّ العزت کے حکم کے تابع رہیں جس طرف خدا حکم دے اس طرف نماز ادا کریں ،قبلے کا بدلنا در حقیقت مومنین کی آزمایش تھی اور تکامل کا ایک مرحلہ تھا اور یہ ھدایت الھی کی مصداق ہے ۔کوئی بھی مکان از خود مقدس نہیں ہو جاتا بلکہ خدا جب کسی جگہ کو تقدس عطا کرتا ہے تب وہ مکان مقدس بن جاتا ہے لھذا اللہ تبارک و تعالی نے کعبہ کو بھی مقدس بنایا ہے اور اس کو مسلمانوں کا قبلہ قرار دیا ہے۔ .(5)
مرحوم علامہ طباطبائی فرماتے ہیں :کسی گھر یا عمارت یا پتھر ،جیسے خانہ کعبہ یا بیت المقدس یا حجر اسود کا (کہ جو خانہ کعبہ کا جز ہے) قبلہ قرار پانا اس وجہ سے نہیں ہے کہ ان چیزوں میں قبلہ بننے کی ذاتی صلاحیت ہے اور دوسری چیزوں میں صلاحیت نہیں ہے اور اس طرح ان کے علاوہ کوئی اور چیز قبلہ نہ بن سکے اور قبلے کا بدلنا محال ہو جائے۔اگر ایسا ہوتا تو بیت المقدس کو ہٹا کر کعبہ کو قبلہ بنانا ممکن نہ ہوتا۔
لھذا خداوند عالم کی تمام مخلوق اس بات میں برابر ہیں کہ کوئی بھی چیز خود بخود کوئی حکم نہیں رکھتی مگر یہ کہ خدا کوئی حکم لگا ئے، اور خداوند عالم جو بھی حکم کرتا ہے وہ بندوں کی ہدایت کے لیئے ہوتا ہے اور اسکے احکام بہترین مصلحت کے مطابق اور کمالات تک پہنچنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔(6)
بعض دیگر علل و اسباب:
(۱)خانہ کعبہ کا اوّلِ خلقت سے مقدس ہونا۔
(۲)خداوند عالم کی جانب سے مونین کا امتحان اور آزمایش کرنا۔
(۳)کفار اور مشرکین کی تہمتوں کا جواب۔
(۴) اسلام کے ابتدائی دور میں خانہ کعبہ میں بت رکھے جاتے تھے ،مسلمان بتون اور دیگر انحرافات کی طرف متوجہ نہ ہوں
اس لئیے پہلے بیت المقدس کو قبلہ بنایا اور بعد میں خانہ کعبہ کو قبلہ قرار دیا۔
تحریر:سید علی عباس رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
(1)تفسیر نمونه ،سوره بقره کی 142 آیۃ کے ذیل میں
(2)سورہ آل عمران آٰیۃ 86
(3)سورہ بقرہ آیۃ 144
(4)سورہ بقرہ آیۃ142
(5)تفسیر نمونه ، جلد1 ص480
(6)تفسیر المیزان جلد 1 صفحه :479 سے 480
Add new comment