خلاصہ: لفظ ولی کے مشتقات کا قرآن کریم میں استعمال۔ ولایت کے دو قسم کے دو استعمال: وجودی رتبہ اور قراردادی سمت۔ اولیائے الہی کی ولایت اور لوگوں کی بنائی ہوئی ولایت کا باہمی فرق۔
لفظ ولی، ولایت، ولاء، مولی، اولیاء، اولی اور اس جیسے الفاظ جو "ولی" و،ل،ی کے مادہ سے مشتق ہیں، اُن الفاظ میں سے ہیں جو قرآن کریم میں سب سے زیادہ استعمال ہوئے ہیں، جو مختلف صورتوں میں یعنی اسم، فعل، مفرد اور جمع کی صورت میں ۲۳۳ موارد میں استعمال کئے گئے ہیں۔
ولایت بعض اوقات ایسے معنی میں استعمال ہوتا ہے کہ اولیائے الٰہی کے وجودی رتبہ کی نشاندہی کرتا ہے اور کبھی ایسے معنی میں استعمال ہوتا ہے کہ جو معاشرہ کے والی اور امت اسلامیہ کے متولیوں کے قراردادی سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ تحریر کیونکہ انسان کے "ولی اللہ" بننے کے لئے قرآن کریم کی ہدایات کی وضاحت کرنے کے درپے ہے ، لہذا ولایت کی سب بحثوں خاصکر فقہی اور معاشرتی بحثوں کو بیان نہیں کرتی بلکہ خاص ولایت کو بیان کرتی ہے۔
اولیائے الٰہی کی ولایت چونکہ اَعلیٰ اسباب سے متعلق ہے تو اُن اسباب کے ظاہر ہونے سے ولایت ضروری ہوجاتی ہے اور ان کے مخفی ہوجانے سے ولایت ناممکن ہوجاتی ہے۔ بنابریں ولایت لوگوں کی انشاء اور اعتبار (بنانے اور فیصلہ) کرنے سے ایجاد نہیں ہوتی اور خلاف انسانیت یلغار سے زائل نہیں ہوجاتی، والیوں کی ولایت کے برعکس کہ ان کی ولایت، لوگوں کی انشاء اور اعتبار سے ایجاد ہوتی ہے اور لوگوں کے توڑنے سے زائل ہوجاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ماخذ: شمیم ولایت ۔ آیت اللہ جوادی آملی)
Add new comment