خلاصہ:امام موسی کاظم علیہ السلام کا زندان سے مدینہ جانا
امام موسی کاظم علیہ السلام کا زندان بان مسیب کہتا ہے کہ :
شھادت سے تین دن پہلے امام موسی کاظم علیہ السلام نے مجھے بلایا اور فرمایا:
آج رات مجھے مدینہ جاتا ہے تا کہ فرائض امامت اپنے بیٹے علی بن موسی الرضا علیہ السلام کو دوں اور اسے اپنا وصی اور خلیفہ مقرر کروں ۔
مسیب کہتا ہے کہ میں نے کہا:
آیا آپ مجھ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ اتنی سختیوں کے باوجود میں آپ کے زنجیر کھولوں اور آپ کے جانے کا راستہ فراہم کروں ؟
تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اے مسیب کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ قدرت اور توان الہی کم ہے ؟
میں نے عرض کی نہیں مولا ۔
فرمایا : پھر کیوں ایسا کہا ۔
میں نے کہا کہ مولا میرے لیے دعا کریں کہ میرا آپ پر ایمان مضبوط ہو ۔
امام علیہ السلام نے دعا کی کہ : خدایا اس کے ایمان کو ثابت قدم رکھنا ۔
پھر فرمایا: میں اسی اسم اعظم کے ساتھ کہ جس کے ذریعے آصف بن برخیا (حضرت سلیمان علیہ السلام کے وزیر) نے تخت بلقیس کو یمن سے فلسطین پہنچایا تھا ۔
اسی اسم اعظم کے ذریعے میں مدینہ جارہا ہوں ۔
مسیب کہتا ہے کہ میں نے دیکھا امام موسی کاظم علیہ السلام نے کوئی دعا پڑھی اور ایک مرتبہ زنجیریں ٹوٹنا شروع ہوگئیں اور پھر امام علیہ السلام ایک دم میری آنکھوں سے غائب ہوگئے۔
کچھ دیر کے بعد واپس آئے اور خود زنجیر پہننا شروع کر دئے ۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے میری طرف دیکھا اور فرمایا:
اے مسیب میں تین دن بعد اس دنیا سے چلا جاؤں گا ۔
میں یہ سن کر برداشت نہ کر سکا اور رونا شروع کر دیا ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا :گریہ نہ کرو اور سنو میرے بعد میرا بیٹا علی بن موسی الرضا تمہارا امام ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ
بحار الانوار، ج 48، ص 224، ح 26.
Add new comment