شھادت امام موسی کاظم علیہ السلام

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ:شھادت امام موسی کاظم علیہ السلام

شھادت امام موسی کاظم علیہ السلام

شھادت امام موسی کاظم علیہ السلام

سن 174 ہجری میں امام موسی کاظم علیہ السلام سے فرزند رسول ہونےکی بحث کی گئی اور جب امام علیہ السلام نے ثابت کر دیا  تو شرمندہ ہو کر واپس مدینہ بھیج دیا گیا ۔
اور پھر 20 شوال 175 ہجری کو مدینہ سے قیدی بنا کر بصرہ بھیج دیا گیا ، ۷ ذی الحج کو بصرہ پہنچے اور عیسی بن جعفر حاکم بصرہ کے زندان میں رکھے گئے عیدکا دن حاکم شراب میں مست تھا اور فرزند رسول (ص) سامنے کھڑے تھے اتنے میں امام نے رونا شروع کر دیا لوگوں نے ماجرا پوچھا کہ مولا رونے کی وجہ کیا ہے تو امام  علیہ السلام نے فرمایا:مجھے دربار شام یاد آرہا ہے ، عیسی بن جعفر آپ کے کردار سے متاثر  ہو کر نرمی برتنے لگا ہارون کو پتا چلا تو اس نے آپ کو وہاں سے بغداد فضل بن ربیع کی نگرانی میں بھیج دیا یہ شخص محب آل محمد مشھور تھا لیکن اپنے حالات سے مجبور تھا اس نے  ایک دن ایک آدمی کو بلایا اور کہا دیکھو زندان میں کیا نظر آتا ہے تو اس نے کہا کہ زندان میں کچھ نہیں ہے فقط ایک سفید چادر نظر آرہی ہے رو کر کہتا ہے نہیں یہ چادر نہیں موسی بن جعفر علیہ السلام ہیں اتنے لاغر ہو گئے ہیں کہ چادر اور جسد میں فرق نہیں معلوم ہوتا جو آدمی صبح سے شام تک سجدے میں رہے خود بتاؤ میں اس پر کیا سختی کروں ۔
ہارون کو جب اس ماجرے کی اطلاع ملی تو امام علیہ السلام کو سندی بن شاہک  کے زندان میں منتقل کردیا اور آخر عمر تک وہیں رہے یہ شخص بہت بڑا ظالم تھا  اس نے امام علیہ السلام پر بہت ظلم کیے آخر ایک دن ہارون کے اشارے پر امام علیہ السلام کو انگور میں زہر دیا امام  علیہ السلام نے کچھ دانے لیے اور کہا بس لے جاؤ یہ کہتا ہے اور کھائیں تو امام علیہ السلام نے ایک دانہ کتے کی طرف ڈالا تو وہ ایک دانہ کھانے سے مر گیا، فرمایا:یہ زہر بہت سخت ہے جاؤ تمھارا کام ہو گیا ۔
مسیب بن زید کہتا ہے جیسے امام علیہ السلام نے فرمایا تھا ویسے ہی ہوا سندی ملعون نے لوگوں کو بلایا اور کہا دیکھو تمھارے امام  زہر سے نہیں بلکہ اپنی مو ت سے دنیا سے جا رہے ہیں جب لوگ اکٹھے ہوئے تو امام علیہ السلام نے فرمایا : مجھے زہر دیا گیا ہے، تو سندی کہتا ہے میں شرمندہ ہوں میں آپ کی تجھیز و تکفین کا انتظام کرتا ہوں آپ ؑنے فرمایا:مجھے تمھاری ضرورت نہیں ، تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا ایک جوان آئے اور امام علیہ السلام سے لپٹ کر روتے رہے اور  اس کے بعد امام علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوئے جوان نے غسل و کفن دیا اور  نماز جنازہ پڑھائی اور غائب ہوگئے ۔
اس کے بعد جنازہ اٹھا ، جنازہ مزدوروں  نے اٹھایا اور آوازیں دیتے ہوئے جارہے ہیں لوگوں یہ رافضیوں  کے امام ہیں ۔
سلیمان نے یہ خبر سنی دوڑتا ہوا آیا  اللہ اللہ فرزند رسول اور یہ توھین پوری طاقت سے جنازے کو قبضہ میں لیا اور بڑے احترام سے دفن کیا ۔
(لا یوم کیومک یا اباعبدالله) مولا رضا اپنے بابا کا پرسہ قبول کیجئے مولا ، آپ خوش قسمت ہیں کہ آخری وقت اپنے بابا کے سرہانے آگئے لیکن مولا ایک وہ بیٹا تھا جو اپنے بابا کے سرہانے تو نہ آسکا بلکہ باپ بیٹے کے سرہانے گئے اور کہا میرے لال میں مرنے جا رہا ہوں اے بیٹا میرے بعد کوفہ و شام کے بازار جانا ہو گا بیٹا تو اکیلا نہیں تیرے ساتھ سر برہنہ پھوپھیاں بہنیں بھی جائیں گی اے بیٹا صبر کرنا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات
عيون اخبارالرضا(ع ) ، ج 1 ، ص 85 .
مرتضی مطهری- سیری در سیره ائمه اطهار- صفحه 168-166
اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمّة، ج۳، ص۴۲
تاریخ بغداد، ج۱۳.
اعیان الشیعة، ج۲.
حضرت موسى كاظم، ص۱۹.
مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج۲، ص۱۷.

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
5 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 64