خلاصہ:شعب ابی طالب علیہ السلام
شعب ابی طالب علیہ السلام
شعب کے لغوی معنی :لغت کے اعتبار سے پہاڑ کے اندر جو شگاف ہوتا ہے اسے شعب کہا جاتاہے ۔(1)
کبھی کبھی دو پہاڑوں کے درمیانی جگہ کو شعب کہا جاتا ہے ۔(2)
یہ جگہ حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کی ملکیت تھی اور ان کے بیٹوں کے درمیان تقسیم ہوئی حضرت عبداللہ کے حصے کو رسول خدا(ص) کو دیا گیا ۔(3)
رسول خدا(ص) کی ولادت اور حضرت خدیجہ کا گھر اسی مقام پر تھا اور جب رسول خدا (ص) کی ہجرت ہوئی تو اسے حضرت عقیل کو دے دیا اور پھر حضرت عقیل کے بیٹوں نے حجاج کے بھائی محمد ابن یوسف ثقفی کو بیچ دی ۔(4)
موقیعت کے اعتبارسے شعب ابی طالب علیہ السلام
کعبہ کے مشرقی طرف شعب ابوقبیس اورشعب ابن عامر کے درمیان واقع ہے ۔(5)
اور یہ شعب ابی طالب کعبہ سے تقریباً 300 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔(6)
اصل میں شھر مکہ میں شعب قبیلہ کے نام سے مشھور تھے یہ شعب شروع میں شعب ابی یوسف کے نام سے مشھور تھا۔(۷)
اور پھر شعب ابی طالب کے نام سے شھرت پایا اور آخر میں شعب بنی ہاشم کے نام سے اور اب یہ شعب ، شعب امام علی علیہ السلام سے مشھور ہے ۔(8)
شعب ابی طالب علیہ السلام پر محاصرہ
قریش کی ناکامی اور مہاجرین کا حبشہ سے پلٹنا اور اسی طرح مسلمانوں کا قریش کے جوانوں پر نفوذ کرنا ، یہ سب کام اس وجہ سے تھے کہ پیامبر اسلام کو قتل کیا جائے ۔(9)
مشرقین یہ چاہتے تھے کہ ابوطالب علیہ السلام سے دو برابر قتل کی دیت حاصل کریں اور پھر ایک غیر قریشی کے ہاتھوں محمد(ص) کو قتل کروا دیں ۔(10)
ابوطالب علیہ السلام نے پوری طاقت سے ان پر اعتراض کیا اور حضرت محمد(ص) کی حمایت میں شعر پڑھے۔(11)
قریش جب ناچار ہو گئے تو اور راستے ڈھونڈنے لگے ادھر ابوطالب نے پیامبر(ص) سے مشورہ کیا اور مجبور ہوگئے کہ پورا قبیلہ اکٹھا رہے ۔(12)
بنی ہاشم اور بنی مطلب دونوں شعب ابی طالب علیہ السلام میں جمع ہو گئے اور اکٹھا رہنے لگے۔(13)
کیونکہ اب اگر کوئی پیامبر (ص) کے قتل کا سوچتا تو ایسا تھا کہ پورا مکہ خون و خون ہو جاتا ۔(14)
مشرقین یہ جان چکے تھے کہ اب ان کے درمیان اتفاق ہو گیا ہے تو انہوں نے اقتصادی پابندیاں لگانا شروع کردیں تا کہ یہ لوگ پیامبر (ص) کو قریش کے حوالے کردیں ۔(15)
قریش نے سوچا کہ کیسے محاصرہ کیا جائے تو انہوں نے اکٹھے ہو کر جس میں ابوجہل،(16)، ابولہب اور ابوسفیان،(17) ، بھی تھے ایک قرار داد لکھی جس کا مضمون کچھ اس طرح سے تھا :
1۔ کوئی بھی بنی ہاشم اور بنی مطلب کے ساتھ لین دین نہیں رکھ سکتا۔
2۔ کوئی بھی بنی ہاشم اور بنی مطلب سے رشتہ داری نہیں جوڑ سکتا ۔
3۔ کوئی بھی اگر حضرت محمد (ص) کو قتل کے لیے دے گا تو اس سے سارے قوانین اٹھا لیے جائیں گے۔(18)
اس عھد نامہ کو لکھنے والے کا نام منصور بن عکرمہ بن عامر تھا ۔(19)
حضرت ابوطالب علیہ السلام راتوں کو اٹھ اٹھ کر پیامبر (ص) کا بستر بدلا کرتے تھے کبھی خود انکی جگہ پر سوتے تھے کبھی علی علیہ السلام کو سلاتے تھے (20) اور کبھی کبھی بنی ہاشم میں سے کوئی سوتا تھا (21) کیونکہ قریش نے پیامبر (ص) کو قتل کا ارادہ کر رکھا تھا۔(22)
شعب ابی طالب کی مدت تین سال تھی اور اسکی شرائط بہت سخت تھیں ۔(23) کیونکہ کوئی بھی چیز اگر بازار مکہ میں آتی تو قریش ڈبل قیمت میں اسے خرید لیتے تاکہ وہ بنی ہاشم تک نہ پہنچے ۔(24)
یہ لوگ فقط حج کے موقع پر شعب ابی طالب علیہ السلام سے خارج ہو سکتے تھے (25) اور وہ بھی مختصر تعداد میں جیسے ہاشم بن عمرو(26)ابوالعاص بن ربیع (27) حکیم بن حزام (حضرت خدیجہ کا بھتیجا)(28)اور کبھی کبھی علی علیہ السلام خارج ہوتے (29)۔
فقط چند لوگ قریش میں سے ایسے تھے کہ جو بنی ہاشم پر رحم کرتے تھے جیسے ابو بختری ، عاص بن هشام ، حکیم بن حزام وغیرہ کہ جو آذوقہ وغیرہ لاتے تھے ۔(30)
ایک مرتبہ پہرے داروں نے حکیم بن حزام کو آذوقہ لاتے دیکھ لیا اور اتنا ظلم کیا کہ موت و زندگی کے درمیان تھے ۔(31)
اور ہاں یاد رہے کہ شعب کی ساری مدت میں جو آذوقہ استعمال ہوا وہ ابوطالب اور خدیجہ کا مال تھا ۔(32)
شرائط اتنی سخت تھیں کہ دو افراد جو مدد کرتے تھے انہیں موت تک پہنچا دیا۔(33)
..............................
منابع
[1]. جوهری، اسماعیل بن حماد؛ صحاح، بیروت، دارالعلم للملایین، 1399ق، چاپ دوم، ج1، ص156.
[2]. ابنذکریا، ابوالحسین؛ معجم مقاییس اللغه، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1404ق، ج3، ص192.
[3]. حموی، یاقوت؛ معجم البلدان، بیروت، دارالکتاب العربیه، بیتا، ج3، ص347.
[4] حموی، یاقوت؛ معجم البلدان، بیروت، دارالکتاب العربیه، بیتا، ج3، ص347.
[5]. ارزقی، ابیالولید محمد بن عبدالله؛ اخبار مكه، قم، انتشارات الشریف الرضی، 1411ق، چاپ اول، ج2، ص165.
[6]. ارزقی، ابیالولید محمد بن عبدالله؛ اخبار مكه، قم، انتشارات الشریف الرضی، 1411ق، چاپ اول، ج2، ص165.
[7]. ارزقی، ابیالولید محمد بن عبدالله؛ اخبار مكه، قم، انتشارات الشریف الرضی، 1411ق، چاپ اول، ج2،ص233 و 265.
[8]. ارزقی، ابیالولید محمد بن عبدالله؛ اخبار مكه، قم، انتشارات الشریف الرضی، 1411ق، چاپ اول، ج2،ص232.
[9]. حلبی شافعی، علی بن برهان الدین؛ السیرة الحلبیه، زینی دحلان، سید احمد؛ بیروت، المكتبة الاسلامیه، بیتا، ج1، ص336.
[10]. یعقوبی، احمد بن ابییعقوب؛ تاریخ یعقوبی، ترجمه محمدابراهیم آیتی، تهران، انتشارات علمی و فرهنگی، 1371ش، ج6، ص336.
[11]. یعقوبی، احمد بن ابییعقوب؛ تاریخ یعقوبی، ترجمه محمدابراهیم آیتی، تهران، انتشارات علمی و فرهنگی، 1371ش، ج6،ص388.
[12]. زرگرینژاد، غلامحسین؛ تاریخ صدر اسلام، تهران، انتشارات سمت، 1378ش، چاپ اول، ص281.
[13]. ابن شهرآشوب؛ مناقب آل ابیطالب، قم، المطبعه العلمیه، بیتا، ج1، ص63.
[14]. زرگرینژاد؛ پیشین، ص297.
[15]. یعقوبی؛ تاریخ یعقوبی، پیشین، ج1، ص336.
[16]. ابنهشام؛ سیره ابنهشام، تحقیق مصطفی السقا و دیگران، بیروت، دار احیاء و التراث العربی، 1985م، ج1، ص351.
[17]. واقدی، محمد بن عمر؛ المغازی، تحقیق دکتر مارسدن جونز، تهران، اسماعیلیان، بیتا، ج2، ص806.
[18] یعقوبی؛ پیشین، ص338.
[19]. یعقوبی؛ پیشین، ص389.
[20] ابن ابیالحدید؛ شرح نهج البلاغه، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، قاهره، دار احیاء الکتب العربیه، 1961م، ج14، ص64.
[21]. بیهقی، ابیبكر احمد بن حسین؛ پیشین، ص312.
[22] ابن شهرآشوب؛ پیشین، ج1، ص63 و یعقوبی؛ پیشین، ج1، ص336.
[23]. ابنسعد، ابوعبدالله محمد؛ طبقات الكبری، بیروت، دار بیروت للطباعة و النشر، 1405ق، ج1، ص209.
[24]. ابنسعد، ابوعبدالله محمد؛ طبقات الكبری، بیروت، دار بیروت للطباعة و النشر، 1405ق، ج2، ص312.
[25]. ابن شهرآشوب؛ پیشین، ج1، ص65.
[26]. ابنهشام؛ السیرة النبویه، پیشین، ج1، ص375.
[27] ابنهشام؛ السیرة النبویه، پیشین، ج1، ص65.
[28] بلاذری؛ انساب الاشراف، تحقیق محمد حمیدالله، قاهره، دار المعارف، بیتا، چاپ سوم، ج1، ص235.
[29] ابن ابیالحدید؛ پیشین، ج13، ص254.
[30]. ابنهشام؛ السیره النبویه، ج1، ص379.
[31]. ابنهشام؛ السیره النبویه، ج1، ص379 به بعد.
[32]. یعقوبی؛ پیشین، ج2، ص25.
[33]. گئورگیو، کنستان ویرژیل؛ محمد پیغمبری که باید از نو شناخت، ترجمه ذبیح الله منصوری، تهران، قیام، 1376ش، ص132و133.
Add new comment