خلاصہ: امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی غیبت کے زمانے میں شعور اور بیداری ،کیساتھ امام کے ظہور کا انتظار کرنا ہمارا فریضہ ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم امام کے وجود کا احساس کریں پھر اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیوں میرا امام اور وارث اتنے عرصہ دراز سے پردے میں ہے اور آخر میری ذمہداری کیا ہے کہ میں اپنے مولا کے ظہور کی راہ ہموار کروں
اہل اسلام کو اگر قرآنی تعلیمات کے آئین میں دیکھا جائے تو قرآن نے مسلمان کو سراپا انقلاب اور مجاہد دین و شریعت بنا کر پیش کیا ہے، دور غیبت امام عصر (عج) میں ہم مسلمانوں کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، کیونکہ عصر حاضر میں جب کہ استعماری حکومتیں اپنے ناپاک حربوں سے بالعموم مسلمان اور بالخصوص نوجوان نسل کو انکی ذمہ داریوں سے دور کرنے پر کمر بستہ ہیں،کیونکہ عصر حاضر میں جب کہ استعماری حکومتیں اپنے ناپاک حربوں سے بالعموم مسلمان اور بالخصوص نوجوان نسل کو انکی ذمہ داریوں سے دور کرنے پر کمر بستہ ہیں، چونکہ ان استعماری طاقتوں کا اصل نشانہ جوانان ملت ہیں۔ لہذا ان ناپاک سازشوں کا توڑ یہی ہے کہ ہم اپنے بنیادی عمل (عمل انتظار) کی تعریف و معرفت حاصل کرسکیں، انتظار کے معانی و مفہوم جاننے کے بعد ہی ہم اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا سکتے ہیں۔ انتظار سے متعلق رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں کہ انتظار میری امت کے تمام اعمال سے افضل ہے اور وہ یوسف زہرا حجۃ ابن الحسن امام مہدی (عج) کے ظہور کا انتظار ہے۔(1)
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ جو شخص نظام ولایت کا قائل ہوتے ہوئے حکومت حق کا منتظر ہو، اس کی مثال ایسے شخص جیسی ہے جو پیغمبر اسلام (ص) کے سامنے راہ خدا میں جہاد میں مصروف ہو، نیز فرماتے ہیں کہ منتظر کی مثال اس شخص جیسی ہے کہ جیسے رسول اکرم (ص) کے ہمراہ درجہ شہادت پر فائز ہو(2) بلاشبہ اسلام کی نظر میں جو شخص امام (عج) کی آمد اور انکی حکومت کا منتظر ہو وہ اعلٰی فضیلتوں اور روحانی بلندیوں کا حامل ہے، لیکن واضح رہے کہ ان درجات کے لئے آزمائشوں کے راستے سے گذرنا پڑتا ہے، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ انتظار کس طرح کیا جائے۔؟ کیا انتظار سے مراد یہ ہے کہ مسلمان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں اور ان کے آس پاس گناہ، فحاشی، ظلم و جبر اور فساد انفرادی و اجتماعی سطح پر پھلتے پھولتے رہیں۔؟ کیا انتظار فرج کا مطلب یہ ہے کہ جب تک امام (عج) تشریف نہیں لاتے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اسلام کے اہم تربیتی، اصلاحی اور اجتماعی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر ظلم و ناانصافی کے خلاف جدوجہد کو منسوخ کر دیا جائے اور ان اسلامی قدروں کو لغو و مہمل قرار دیا جائے۔
نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے کہ مکتب انتظار فرج مادہ پرستی، جمود، سکوت، ٹھراو، مصلحت پسندی، مغربی و استعماری حکومتوں کی نوکری چاکری اور غلامی، فن خواجگی کا مکتب ہے بلکہ مفہوم مکتب فرج دراصل شعوری عروج، حرکت، کربلائی روش، انقلاب، جہد پیہم، بے باکی، نظام شہنشاہیت و ملوکیت کے خلاف سراپا احتجاج اور مکمل مکتب حریت ہے۔ بقول علامہ سید جواد نقوی انتظار چُپ سادھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ نظامِ امامت و نظامِ ولایت لیکر آنے والے کے لئے استقبال کرنا پڑتا ہے، وہ استقبال گھروں کی چاردیوای کے اندر نہیں کیا جاتا بلکہ اسکے لئے گھروں اور خانقاہوں سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ جس کا عملی ثبوت امام خمینی (رہ) نے انقلاب اسلامی ایران کے ذریعہ دنیا کو دیا۔
اسلام ٹائمز کے ایک کالم نویس فدا حسین اپنی ایک تحریر میں جمود و سکوت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اِس تیز رفتار اور ہنگامہ خیز دور میں جمادات کو بھی جمود زیب نہیں دیتا ہے، چہ جائیکہ انسان اور اس کی زندگی کے مختلف نظام، اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں جمود نے سر اٹھایا وہاں موت نے اپنا ڈھیرا جمایا۔ مردہ انسانوں اور نظاموں کی لاشوں کو ظلم و جبر کے سرد خانوں میں ٹھونس کر ان کے تئیں یہ باور کرانا سراسر خود فریبی ہے کہ یہ ابھی صحیح و سالم ہیں، لیکن جب عوام میں جوشِ انقلاب انگڑائیاں لینے لگے تو یہ سرد خانے اس کی زد میں آنے سے نہیں بچ پاتے ہیں، نتیجتاً ان لاشوں کی حقیقت طشت از بام ہوجاتی ہے اور ان کی عفونت سے پوری دنیا الامان و الحفیظ کہتی ہے۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا کے بیشتر ممالک بالخصوص عرب دنیا میں ضمیر فروش، خائن، بدکردار، جابر و ظالم، بے ایمان اور گمراہ حکمرانوں نے سالہا سال سے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے اور وہ جمود کو متاع حیات جان کر ہر قسم کے تغیر اور ارتقاء کو اپنی موت تصور کرتے ہیں۔ لہٰذا مدت سے اسی فراق میں ہیں کہ عوام پر غفلت و بے خبری کا عالم طاری رہے، اس جمود کو برقرار رکھنے کیلئے ان جارح حاکموں نے ہر طرح کے جتن کئے۔ انہوں نے اپنے فرسودہ نظام کو دوام بخشنے کی خاطر کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ کوئی ایسا ہتھکنڈہ نہیں ہے جس کو وہ استعمال میں نہ لائے ہوں۔‘‘(3)
امام زمانہ (عج) کے آنے کے بعد سامراجیت، ملوکیت، شہنشاہیت اور چنگیزیت کے خلاف نبرد آزما ہونگے، ہمیں گھروں سے نکل کر اس کے مقدمات فراہم کرنے ہونگے اور تابناک و روشن نظامِ ولایت کے لئے کوشش کرنی ہوگی۔ دور حاضر میں عالم اسلام پر ہونے والے استعماری و سامراجی حربوں سے آگہی اور ہمیں ان کے ازالے کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی، دور حاضر میں مسلمانوں کے درمیان آپسی رسہ کشی، گروہ بندی، فرقہ واریت، حکمرانوں کی انا پرستی عروج پکڑ رہی ہے، جو دشمنان دین کے لئے باعث مسرت ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغرب و صہیونی طاقتیں مسلمانوں کو پیروں تلے روندے جا رہی ہیں اور ہر آئے دن ہمارے مقدسات کی توہین و پامالی کی جاتی ہے اور ہم نام نہاد مسلمان انتظار فرج کے دعویدار تماشائی بیٹھے ہوئے ہیں، ہماری اس طویل خواب غفلت سے بیداری ہی حقیقی انتظار فرج ہے۔
دور حاضر میں مسلمانوں کے اندر بے انتہاء غیر اسلامی رسم و رواج، توہمات و شبہات، بدعت و خرافات رائج ہیں، جو عین دین سمجھ کر اپنائے و عملائے جا رہے ہیں، یہ تغافل و غیر آئینی رسومات ہماری اور امام کی قربت اور ان کے ظہور میں مانع ثابت ہو رہے ہیں، اگر ہم خود کو جانِ جہاں امام زماں کے حقیقی منتظر تصور کرتے ہیں اور امام کے سپاہی بننے کی آرزو دل میں رکھتے ہیں تو ایسی بدعتوں اور خرافات سے خود کو ہرحال میں دور رکھنا ہوگا، تاکہ ہم امام زمانہ (عج) کے حقیقی پیروکار ثابت ہوسکیں۔ عصر حاضر کی مشکلات اور ان کے حل کے لئے علماء کرام، دانشمندان دین اور بالخصوص طلاب حضرات کو صف بستہ ہو کر اپنے شرعی فرائض کو نبھانا ہوگا، تاکہ ظہور مہدی برحق کے مقدمات فراہم ہوسکیں اور ظہور امام کی راہ ہموار تر ہو جائے۔
دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ زلزلہ عالم افکار!(4)
منابع:
1: صبح انتظار ص 311
2:بحار الانوار ج 52 ص 142
3:اسلامز ٹایمز حصہ مقالات
4:www.abp-photo.com
Add new comment