امیرالمومنین (ع) انسانیت کے معلم

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت علی علیہ السلام نبی اکرم (ص) کے علمی وارث اور انسانیت کی ھدایت ونجات کے ضامن ہیں امیرالمومنین (ع) نے اپنے علم کے ذریعے  ہرمعاشرتی طبقہ کی رہنمائی کی اور ان کی ھدایت کی کوشش کی

امیرالمومنین  (ع) انسانیت کے معلم

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے صفات کمال میں پھلی صفت علم ھے۔

 ابن حدید کھتے ھیں۔

 حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی شخص کے متعلق یہ نھیں کھاجا سکتا کہ ھر فضیلت اس کی ذات سے پھوٹتی ھو ھر فرقہ کی انتہاء انھی کی طرف ھو ،ھر گروہ اسی کی طرف جذب ھونے کا متمنی ھو۔

 آپ جانتے ھیں کہ علوم میں سب سے اعلی علم ،علم الٰھی ھے آپ(ع) کے کلام میں اس علم کے اقتسبات موجود ھیں۔ آپ(ع) ھی سے یہ کلام نقل ھوا ھے آپ کی طرف ھی اس کلام کی ابتداء و انتھاھے۔

اھل توحید و عدل اور ارباب نظر کے عنوان سے شھرت رکھنے والے معتزلہ بھی آپ کے شاگرد ھیں کیونکہ معتزلہ کے بزرگ واصل بن عطا،ابوہاشم عبداللہ بن محمد بن حنفیہ کے شاگرد ھیں اور ابوہاشم اپنے والد کے اور ان کے والد حضرت امیر علیہ السلام کے شاگرد ھیں ۔ جہاں تک اشعریہ کا تعلق ھے اس گروہ کے سر کردہ ابوالحسن اشعری ھیں، آپ ابو علی جبائی کے شاگرد ھیں اور ابوعلی جبائی کا شمار معتزلہ کے بزرگوں میں ھوتا ھے۔لہٰذا اشعریہ کی بازگشت معتزلہ کی طرف ھی ھے اور ان کے معلم حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ھیں ۔اورامامیہ اور زیدیہ کا حضرت میر علیہ السلام کا شاگرد ھونا بھت ھی واضح اور روشن ھے ۔[1]

اسی طرح علوم میں سب سے اھم علم ،علم فقہ ھے اس علم کے بانی بھی حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام ھیں، اسلام کے ھر فقیہ کی بازگشت آپ کی طرف ھے ۔

 مذاھب اربعہ کے آئمہ جیسے امام ابو حنیفہ ،امام شافعی ،امام احمدابن حنبل اور امام مالک ھیں ان لوگوں کا آپ کی طرف رجوع کرناواضح ھے کیونکہ یہ لوگ شخصی طور پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد ھیںیا ان میں سے بعض آپ(ع) کے شاگردوں کے شاگرد ھیں جیسا کہ امام مالک ھیں انھوں نے ربیعہ الرای کے پاس علم حاصل کیا انھوں نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے ابن عباس سے اور ابن عباس حضرت امیر علیہ السلام کے شاگرد تھے ۔[2]

شیعہ اور اھل سنت کی کتب میں یہ روایت ھے کہ حضرت رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

”اٴقضاکم علي “

 تم میں سب سے بڑے قاضی علی( علیہ السلام) ھیں۔

قضاوت فقہ کی ھی ایک قسم ھے جیسا کہ روایت میں ھے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب حضرت علی(ع) کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو بارگاہ خداوندی میں عرض کی بار الھا اس کے دل و زبان کو مضبوط و محکم رکھنا حضرت امیر علیہ السلام کھتے ہیں امت میرے کسی بھی فیصلے میں شک نہ کرتی تھی۔[3]

ابن عباس کھتے ھیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  ارشادفرمایا:

 علي بن اٴبي طالب اٴعلم اُمتّيِ واٴقضاھم فیما آختلفوا فیہ من بعدي۔

      علی ابن ابی طالب میری امت میں سب سے زیادہ صاحب علم ھیں میرے بعد ھر قسم کے اختلافات کا سب سے بھتر فےصلہ کرنے والے ھیں۔[4]

ابو سعید خد ری کھتے ھیں کہ میں ُنے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا :

اٴ نا مدینة العلم و علي بابھا فمن اراد العلم فلیقتبسہ من علي ۔[5]

میں علم کا شھر ھوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ھے جو علم حاصل کرنا چاھتا ھے اسے چاہئے کہ وہ علی (ع) سے حاصل کرے۔

عبداللہ بن مسعود کھتے ھیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی کو ایک طرف بلایا آپ ھم سے علیحدہ ھو گئے جب وآپس آئے تو ھم نے وجہ پوچھی حضور(ص)نے حضرت علی سے فرمایا انھیں جواب دیں۔حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

علّمَنِی رسول الله(ص) اٴلف بابٍ مِنَ العلمِ ینفتَح لِي  من کل باب اٴلفَ باب۔

رسول الله نے مجھے علم کے ایک ہزار ابواب کی تعلیم دی، جس کے ھر باب سے ہزار  ابواب میرے لئے کھل گئے ھیں ۔[6]

اسی طرح باقی تمام علوم کے موجد بھی حضرت علی علیہ السلام ھیں مثلا علم تفسیر ھے اس میں آپ کو ید طولیٰ حاصل ھے آپ کی نظر کتب تفسیر میں نظر واحد ھے اس کے مصداق آپ کے اور ابن عباس کے شاگرد قدح معلی ھیں آپ کھتے ھیں،

فوالذی فلق الحبہ وبراٴ النسمہ لو ساٴلتموني عن آیة ، آیة في لیل نزلت اٴ و في نھار مکیُّھا ومدنیھا ، سفریھا وحضریھا ناسخھا ومنسوخھا ومحکمھا و متشابھھا وتاٴویلھا وتنزیلھا لاٴخبرتکم۔

مجھے اس رب کی قسم جس نے گٹھلی کو چیرا اور مخلوقات کو پیدا کیا اگر تم مجھ سے کسی آیت کے متعلق سوال کرو کہ فلاں آیت رات میں نازل ھوئی یادن میں نازل ھوئی وہ مکی ھے مدنی ھے، سفر میں نازل ھوئی یا حضر میں ناسخ ھے یامنسوخ، متشابہ ھے یا محکم ھے اس کی تاویل کیا ھے اس کی وجہ تنزیل کیا ھے میں ھر چیز کے متعلق تمھیں جواب دوں گا ۔[7]

اس طرح حضرت نے یہ بھی فرمایا:

ما من آیة الا وقد علمتُ فیمن نزلت واٴین نزلت في سھل اٴوجبل واِنَّ بین جوانحي لعلماً جمّاً۔

 کوئی بھی آیت ایسی نھیں ھے جس کے متعلق میں نہ جانتا ھوں کہ وہ کس کے متعلق نازل ھوئی ھے اور کہاں نازل ھوئی ھے زمین پر نازل ھوئی ھے یا پہاڑ پر۔ میرے سےنے میں ٹھاٹےں مارتا ھوا سمندر ھے ۔[8]

ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ آپ کے چچازاد بھائی اور آپ کے علم میں کیا نسبت ھے ؟ابن عباس کھتے ھیں سمندر کے مقابلہ میں جو قطرہ کو نسبت ھے وھی نسبت علی علیہ السلام کے اور میرے علم میں ھے۔[9]

اسی طرح علم نحو ، اخلاق ، تصوف ،کلام اور فرائض وغیرہ کے موٴسس اور بانی بھی حضرت علی علیہ السلام ھیں اور آپ نے ھی ان علوم کے اصول اور فروع کی تشرےح فرمائی ھے جیسا کہ علم نحو  کے جوامع ابو الاسود الدؤلی کوکلمہ کی اسم فعل حرف کی طرف تقسیم ،  معرفہ نکرہ اعراب اور حرکات کی پہچان کی تعلیم آپ نے ھی فرمائی ھے ۔یہاں تک کہ شرح نھج البلاغہ میں ابن حدید کھتے ھیں آپ جس قدر علوم کی انتہاء تک پھنچے ھوئے تھے انھیںمعجزات کھنا بعےد معلوم نھیں ھوتا کیونکہ اس طرح کے حصر اور استنباط کرنا قوت بشر سے باھر ھے۔[10]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منابع:

[1] شرح نھج البلاغہ ج ۱ ص ۱۷۔
[2] شرح نھج البلاغہ ج ۱ ص ۱۸۔
[3] شرح نھج البلاغہ ج۱ ص ۱۸۔
[4] ارشاد مفید ج ۱ ص ۳۳۔
[5] ارشاد مفید ج۱ ص ۳۳۔
[6] بحارالانوار، مجلسی ص۴۰ ج۱۴۴ ۔
[7] الامام علی منتھی المال البشری ص۱۱۰ ۔
[8] امام علی منتھی کمال البشری عباس علی موسوی ص۱۰۹۔      
[9] شرح نھج البلاغہ ابن حدید ج ۱ص۱۹۔
[10] شرح نھج البلاغہ ابن حدید ج ۱ ص۲۰۔
(11) www.welayatnet.com
(12) /www.islamtimes.org

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 50